Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”اتنا کہہ دینے سے لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے؟”
” ہو جانے چاہئیں۔”
” اور وہ یقین کر لیں گے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے۔”
”کر لینا چاہیے۔”
” اور اگر میری بات پر کسی کو یقین نہ آئے تو میں کیا کروں…اپنا مذاق بنواؤں یا پھر بات کرنے والے کو تمہارے پاس بھیجوں ؟”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”لوگ میرے جھوٹ پر یقین نہیں کریں گے۔”
”آپ اس بات کو جھوٹ نہ رہنے دیں۔”
”کیا مطلب؟”



”یہ رشتہ ختم کر دیں…جھوٹ سچ میں بدل جائے گا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتا رہا۔
”ایسا کیوں کروں میں؟” وہ کچھ دیر بعد جیسے بھڑک کر بولا۔
”آپ کو لوگوں کے سوالوں کا جواب نہیں دینا پڑے گا…ان سے جھوٹ نہیں بولنا پڑے گا۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم یہ رشتہ ختم کرنے پر تیار ہو مگر تم یہ نہیں کر سکتیں کہ اپنی دوست کو ایسے سکینڈلز شائع کرنے سے روکو۔”
”نہیں۔ میں ایسا نہیں کر سکتی۔” اس نے دوٹوک انداز میں انکار کیا۔ ”جس نے جو غلط کام کیا ہے،
اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔”
”غلط کام کی جو تعریف تمہارے اور تمہاری دوست کے پاس ہے، اس پر صرف عمر پورا اترتا ہے۔” جنید نے مشتعل ہوتے ہوئے کہا۔ ”صالحہ کو کہو، وہ ہر روز ایک آرٹیکل لکھے…ہر روز ایک افسر کی عزت اچھالے جو کام عمر نے کیے ہیں وہ تو اور بھی بہت سے کر رہے ہیں۔ پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ باقیوں کے بھی نام دے…اپنے خاندان کے لوگوں کے بھی نام دے۔”
”عمر سے اتنی ہمدردی کیوں ہے آپ کو؟ وہ میرا کزن ہے، مجھے اس کی پروا ہ نہیں ہے…مگر آپ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ” وہ تمہارا کزن ہے…میں تمہیں یہی یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔”
”یہ یاد دلانا آپ کا کام نہیں ہے۔ آپ کو عمر کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی چھوٹی موٹی باتوں سے وہ پریشان نہیں ہوتا۔ یہ کارنامے تو سرخاب کے پر ہیں جو ہر بیورو کریٹ اپنے سر پر سجانا فخر سمجھتا ہے۔ آپ خواہ مخواہ اپنا سر کھپا رہے ہیں۔” علیزہ نے سرد مہری سے کہا۔
”میں صالحہ سے خود بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”آپ ایسا نہیں کریں گے۔”
”کیوں نہیں کروں گا۔ تمہیں اگر اپنی فیملی سے دلچسپی نہیں ہے تو مجھے ان کی پرواہ کرنے دو۔”
”میری فیملی کو آپ کی پرواہ اور دلچسپی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پہلا سکینڈل نہیں ہے جو وہ فیس کر رہے ہیں…ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر پریشان نہیں ہوتے۔”
علیزہ نے اسی طرح سرد مہری سے کہا۔



”اور اگر ہوں تو وہ خود ہی ہر مسئلے کا حل نکال لیتے ہیں۔ کسی دوسرے کو زحمت نہیں دیتے…اور صالحہ جیسے جرنلسٹس کے آرٹیکلز ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے… وہ جرنلسٹس کے ہاتھوں پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہیں…بہتر ہے، آپ اس سارے معاملے سے خود کو دور رکھیں۔” اس بار علیزہ نے قدرے نرمی سے کہا۔
”یہ آپ کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں…انکل ایاز اور عباس خود اس مسئلے کو ہینڈل کر سکتے ہیں…بلکہ عمر بھی…آپ صرف انکل ایاز اور عباس کو یہ بتا دیں کہ صالحہ نے میرے کہنے پر یہ آرٹیکل نہیں لکھا اور نہ ہی میں اس کے کسی آرٹیکل پر کوئی اعتراض کروں گی ۔ وہ میری دوست ضرور ہے مگر وہ جو چاہے لکھ سکتی ہے…اسے میرے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔”
علیزہ کے لہجے کی سرد مہری اسی طرح برقرار تھی۔
جنید کچھ دیر ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور اگر میں تم سے ریکویسٹ کروں کہ تم میرے کہنے پر صالحہ سے بات کرو اور اس سے کہو کہ وہ۔۔۔”
علیزہ نے جنید کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔ ”تو میں آپ سے معذرت کر لوں گی…میں یہ کام نہیں کروں گی…چاہے آپ کہیں، چاہے کوئی اور۔۔۔”
جنید کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کر دی اور اسے پارکنگ سے باہر لے آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!