واپسی کا سارا سفر بڑی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ گاڑی کی فضا میں کشیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔ علیزہ کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو چکا تھا۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے جنید کے ساتھ آنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا…وہ اس کے ساتھ نہ آتی تو ان کے درمیان یہ جھگڑا کبھی نہ ہوتا نہ ہی جنید کا موڈ اس طرح خراب ہوتا۔
جنید ہر بار اسے گھر کے اندر چھوڑنے جاتا تھا مگر اس دن اس نے گیٹ پر ہی گاڑی روک دی۔ علیزہ گاڑی کا دروازہ کھول کر خاموشی سے اتر گئی۔ اس کے اترتے ہی جنید نے کچھ بھی کہے بغیر گاڑی کو موڑ لیا۔
جتنی دیر میں چوکیدار نے گیٹ کھولا۔ وہ وہاں سے جا چکا تھا۔ وہ سر جھٹکتی ہوئی اندر چلی آئی۔
نانو لاؤنج میں ہی تھیں۔
”جنید اندر نہیں آیا؟” انہوں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
نہیں اسے کچھ کام تھا۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کا چہرہ اس کا ساتھ نہیں دے رہا ہوگا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟” نانو نے اس کی کیفیت منٹوں میں بھانپ لی۔
”کچھ نہیں…بس میں تھک گئی ہوں۔ سونا چاہتی ہوں۔” وہ نانو سے نظریں چرا کر لاؤنج سے نکلنے لگی۔
”علیزہ !” نانو کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا۔
”جنید سے تمہارا کوئی جھگڑا ہوا ہے؟”
”نہیں۔” اسے توقع نہیں تھی۔ نانو اتنی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی۔
”میں اسے فون کرتی ہوں۔” نانو فون کی طرف بڑھتے ہوئے بولیں، وہ بے اختیار جھنجھلاتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
٭٭٭