Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

آفس ہمیشہ کی طرح تھا۔ وہ اپنے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی میز پر چھوٹے موٹے بہت سے نوٹس رکھے ہوئے تھے۔ اپنا بیگ ایک طرف رکھ کر وہ برق رفتاری سے ان نوٹس کو دیکھنے لگی۔ چند سرکلرز تھے سٹاف کے لیے…کچھ آج کے دن کے حوالے سے ہدایت اور چند دوسرے نیوز پیپرز آرٹیکلز کی کٹنگ جو اس کو بھیجے گئے تھے۔
”تم نے بہت دیر کر دی۔ میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔” صالحہ اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”تین دفعہ آئی ہوں تمہاری تلاش میں۔” صالحہ نے کہا۔
”ہاں۔ آج مجھے کچھ ضرورت سے زیادہ دیر ہو گئی۔” علیزہ نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ”کتنے بجے نکلنا ہے یہاں سے؟”
وہ صالحہ کے ساتھ ہی ان سوشل ایکٹیوٹیز کی کوریج کے لیے نکلا کرتی تھی۔
”وہ تو بارہ بجے ہی نکلیں گے…میں تمہیں یہ آرٹیکل دکھانا چاہ رہی تھی۔” صالحہ نے چند پیپرز اس کی ٹیبل پر رکھ دیئے۔
”اس وقت ضروری ہے؟ میں دراصل یہ سارے پیپرز دیکھنا چاہ رہی ہوں…کیا یہ کل کے نیوز پیپر کے لیے جا رہا ہے؟” علیزہ نے اس کے آرٹیکل پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔



”نہیں۔ کل کے نیوز پیپر کے لیے تو نہیں جا رہا مگر شاید پرسوں چلا جائے۔ میں چاہتی تھی تم اس کو دیکھ لو۔ سائرہ نے تو اس کو کچھ مختصر کرنے کے لیے کہا ہے۔ میں نے کوشش کی ہے مگر زیادہ ایڈیٹنگ کرنے سے اس کا اوور آل تاثر خراب ہو جائے گا۔” اس نے ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”پھر تو میں اسے گھر بھی لے جا سکتی ہوں، کل تمہیں دے دوں گی۔ آج مجھے ذرا یہ کام نپٹانے دو۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ کل دے دینا…مگر رات کو رنگ کرکے مجھے بتا ضرور دینا کہ تم نے اسے پڑھ لیا ہے۔” صالحہ نے اس کے کیبن سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے اس کے آرٹیکل کو اپنے فولڈر میں رکھ لیا اور دوبارہ اپنی میز پر پڑے ہوئے کاغذات دیکھنے لگی۔
گیارہ بجے تک وہ اسی طرح کام کرتی رہی۔ چند بار وہ آفس کے دوسرے حصوں اور ایڈیٹر کے پاس بھی گئی۔ بارہ بجے وہ اور صالحہ آفس سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے جب اس کے موبائل پر میسج آنے لگا۔
”Still Waiting for the Card” (کارڈ کے لیے انتظار کر رہا ہوں)
وہ میسج پڑھ کر بے اختیار مسکرائی، اس کے ذہن سے جنید کے ساتھ صبح ہونے والی گفتگو اور کارڈ غائب ہو چکا تھا۔
”جنید کا میسج ہے؟” صالحہ نے اسے موبائل کا پیغام پڑھ کر مسکراتے دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں!” علیزہ نے سر ہلایا۔ صالحہ نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے گردن آگے بڑھا کر اس کے موبائل پر نظر ڈالی۔
”یہ کون سے کارڈ کا انتظار ہو رہا ہے؟” صالحہ نے مسکراتے ہوئے کچھ تجسس آمیز انداز میں کہا۔ ” اس کی برتھ ڈے ہے؟”
”نہیں۔ برتھ ڈے نہیں ہے۔” علیزہ نے موبائل بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔ ”وہ شمع نے جو ویلفیئر ہوم شروع کیا ہے اس کا نقشہ میں نے جنید سے بنوایا تھا، اس نے کچھ چارج کیے بغیر ہی کام کر دیا جبکہ شمع صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ نسبتاً کم چارج کرے۔”
علیزہ نے اپنی ایک کولیگ کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”صبح اس سے اسی کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو اس نے کہا۔ بہتر ہے میں کارڈ بھیج دوں…میں نے کہا ٹھیک ہے بھجوا دوں گی۔ اب یہاں آکر میں اتنی مصروف ہو گئی کہ مجھے یاد نہیں رہا اور وہ شاید ابھی کارڈ چاہ رہا ہے۔”
”تو ہم باہر تو جا ہی رہے ہیں۔ تم رستے سے کارڈ لو اور کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دو۔” آفس کے بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے صالحہ نے کہا۔
”ہاں۔ میں بھی یہی سوچ رہی ہوں کہ راستے سے کارڈ لے کر پوسٹ کر دوں۔” علیزہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
ایک کارڈ سنٹر سے کارڈ لے کر اس نے کورئیر سروس کے ذریعے جنید کے آفس بھجوا دیا اور خود وہ صالحہ کے ساتھ اس فنکشن میں چلی گئی جو انہیں کور کرنا تھا۔
فنکشنز اور ایک نمائش کو کور کرنے کے بعد وہ صالحہ کو اس کے گھر ڈراپ کرکے جس وقت گھر آئی اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔ نانو گھر میں موجود نہیں تھیں۔ علیزہ انہیں گھر پر نہ پا کر مطمئن ہو گئی۔ ان کی عدم موجودگی کا مطلب یہی تھا کہ وہ اس کا انتظار کیے بغیر مسز رحمانی کے ڈنر میں چلی گئی تھیں۔
”میں کھانا لگا دوں؟” مرید بابا نے اسے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے دیکھ کر کہا۔
”نہیں۔ میں کھانا باہر سے کھا کر آئی ہوں۔” علیزہ نے انکار کر دیا۔
”بیگم صاحبہ تاکید کر کے گئی ہیں کہ آپ کھانا ضرور کھائیں۔” خانساماں نے کہا۔



”میں جانتی ہوں مرید بابا! لیکن میں کھانا کھا کر آئی ہوں، اب دوبارہ تو نہیں کھا سکتی… آپ نانو کو کہہ دیجئے گا کہ میں نے کھا لیا۔” اس نے خوشگوار انداز میں کہا ۔
”جنید صاحب نے پھول بھجوائے تھے آپ کے لیے۔ میں نے آپ کے کمرے میں رکھ دیئے ہیں۔” وہ مرید بابا کی اطلاع پر خوشگوار حیرت کا شکار ہوئی۔
”میں دیکھ لیتی ہوں۔” وہ خانساماں سے کہہ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
بیڈ روم کی لائٹ آن کرتے ہی ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے ہوئے سرخ گلابوں کے ایک بوکے نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ وہ بیگ اور فولڈر بیڈ پر اچھالتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف چلی آئی۔
ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے اس نے پھولوں کو اٹھا لیا۔ اس کی طرف سے بھیجا جانے والا یہ پہلا بوکے نہیں تھا۔ وہ اکثر اسے اسی طرح حیران کیا کرتا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے بوکے پر لگا ہوا چھوٹا سا کارڈ کھول لیا۔
”Always at your disposal!” (ہمیشہ آپ کے لیے حاضر)
”Junaid Ibrahim”
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پھول بوکے سے نکال کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے ہوئے کرسٹل کے گلدان میں لگا دیئے۔ ایک لمبی ٹہنی والے گلاب کو چھوڑ کر اس نے سارے گلاب گلدان میں سجا دیئے۔
پھر اس واحد گلاب کو لے کر اپنے بیڈ پر آگئی اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے گلاس میں رکھ دیا۔ جگ سے کچھ پانی اس نے اس گلاس میں ڈالا اور پھر اسے دیکھنے لگی۔
اس نے ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس چھوٹے سے کارڈ کو کھول کر دیکھا، جسے اس نے پھولوں سے الگ کر لیا تھا۔

٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!