Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

عمر کے ساتھ اس رات ہونے والی تند و تیز گفتگو کے بعد اگلے کئی دن وہ بری طرح ذہنی انتشار کا شکار رہی تھی۔ اس رات سونے کے لیے نیند کی گولیاں لینے کے بعد وہ اگلا سارا دن سوتی رہی تھی اور سہ پہر کے قریب جس وقت وہ بیدار ہوئی۔ اس وقت گھر میں شہلا، اس کی ممی اور نانو کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔
”حد کر دی علیزہ تم تو، سارے گدھے گھوڑے بیچ کر سو گئیں۔ ” اس کے بیدار ہوتے ہی شہلا نے کہا۔ وہ اسی وقت کمرے میں داخل ہوئی تھی اور اس نے علیزہ کو بیڈ پر آنکھیں کھولے دیکھ لیا تھا۔
علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”تمہیں اندازہ ہے کیا وقت ہو رہا ہے؟” شہلا نے اس کو خاموش دیکھ کر، اس کی توجہ کلاک کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے بے تاثر چہرے کے ساتھ دیوار پر لگی ہوئی گھڑی پر نظر دوڑائی۔ وہاں پانچ بج رہے تھے، اسے حیرت نہیں ہوئی۔ وہ پہلے ہی اندازہ کر چکی تھی کہ وہ بہت دیر سے سو رہی تھی۔
”تم مجھے اٹھا دیتیں۔” اس نے اپنے کھلے ہوئے بالوں میں کلپ لگاتے ہوئے کہا۔



”میں نے ایک بار کوشش کی تھی مگر تم اتنی گہری نیند میں تھیں کہ میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” شہلا نے کھڑکی کے پردے کھینچتے ہوئے کہا۔ ” سب لوگ تم سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔ میں خود بھی صرف اس لیے رکی ہوئی ہوں کہ تم اٹھ جاؤ پھر جاؤں…اور تم ذرا اپنی شکل دیکھو۔ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے…آنکھیں دیکھو، کتنی بری طرح سوجی ہوئی ہیں اور سرخ بھی ہیں…تم روتی رہی ہو؟” شہلا کو بات کرتے کرتے اچانک خیال آیا۔
”میں کس لیے روؤں گی؟” وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے سرد آواز میں بولی۔
”تو پھر تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے…شاید زیادہ دیر تک سونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے،” شہلا نے کہتے کہتے اچانک بات بدل دی۔
”جنید نے دوبار رنگ کیا ہے۔” وہ ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے رک گئی۔
”کیوں؟”
”کیوں…کیا مطلب…ظاہر ہے تم سے بات کرنے کے لیے فون کیا تھا۔ ” شہلا نے کہا۔ ”میں نے اسے بتا دیا کہ تم ابھی سو رہی ہو، وہ بعد میں فون کر لے۔”
”میں بعد میں بھی اس سے بات نہیں کروں گی۔” شہلا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ اس کے لہجے میں کوئی غیر معمولی چیز تھی۔
”کیا مطلب ؟”
علیزہ اس کے سوال کاجواب دیئے بغیر ڈریسنگ روم میں داخل ہو گئی۔ شہلا اس کے پیچھے آئی۔ وہ وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہی تھی۔
”مجھے لگتا ہے۔ تم ابھی بھی نیند میں ہو۔” شہلا نے کہا۔
”تمہیں ٹھیک لگتا ہے، میں واقعی نیند میں ہوں…شاید کوما میں۔” وہ کپڑے نکالتے ہوئے بڑبڑائی۔
”تم جنید سے بات کرنا نہیں چاہتیں؟” شہلا نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”نہیں۔” کسی تو قف کے بغیر جواب آیا۔
”کیوں؟”
” فی الحال تو میں اس کیوں کا جواب نہیں جانتی، جب جان جاؤں گی تو تمہیں بتا دوں گی۔” علیزہ نے وارڈ روب بند کرتے ہوئے کہا۔
”جنید کا اب فون آئے تو کیا کہوں؟”
”وہی جو میں نے کہا ہے…بتا دینا کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ مجھے فون نہ کرے۔” وہ اب اپنے کپڑے ہینگر سے نکال رہی تھی۔
”اس کی امی نے بھی فون کیا تھا۔ وہ بھی تم سے بات کرنا چاہتی تھیں۔” شہلا نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”میں اس کی امی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تم انہیں بھی بتا دو۔” اس کے لہجے میں ابھی بھی وہی پہلے والی سرد مہری تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”بالکل ٹھیک ہوں۔”
”رات کو توتم نے جنید سے بات کی تھی۔ اس وقت تم نے اعتراض نہیں کیا۔”
”غلطی کی تھی اب نہیں کروں گی۔”
”تم جا کر نہاؤ پھر تم سے بات کروں گی اس وقت تم عقل سے پیدل ہو۔” شہلا نے ڈریسنگ روم سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ کے بعد بیڈ روم میں آئی تھی۔
”تمہارا موڈ خراب کیوں ہے؟” وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کر بالوں کو برش کرنے لگی تو شہلا نے اس سے کہا۔
”تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ میرا موڈ خراب نہیں ہے۔” علیزہ نے بالوں میں برش کرتے ہوئے پرسکون انداز میں کہا۔
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں بے وقوف نہیں ہوں۔” شہلا نے قدرے خفگی سے کہا۔
”میرے علاوہ اور کوئی بے وقوف ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ” علیزہ اس کی بات کے جواب میں بڑبڑائی۔
”جنید اتنا اچھا بندہ ہے۔ میں اس سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔” شہلا نے اس کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر کہا۔ ” سب کو ہی بہت اچھا لگا ہے سب تعریف کر رہے تھے۔”
”مجھے اس کی خوبیوں اور اچھائیوں میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ یقیناً اتنا ہی اچھا ہے وہ جتنا تم کہہ رہی ہو۔” علیزہ نے آئینے میں دیکھتے ہوئے اس سے کہا ۔



”تو پھر اس سے خفگی کی وجہ کیا ہے؟”
”میں اس سے ناراض نہیں ہوں۔”
”پھر تم اس سے بات کرنے سے انکار کیوں کر رہی ہو؟”
”یہ میں نہیں جانتی۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” شہلا نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”بس میں اس سے بات کرنا نہیں چاہتی۔”
”یہی تو پوچھ رہی ہوں …کیوں؟”
”یہ ضروری نہیں ہے ہر شخص کے پاس ہر سوال کا جواب ہو۔”
”یہ اتنا مشکل سوال نہیں ہے جس کے جواب میں تمہیں دقت پیش آئے۔” شہلا بحث کرنے کے موڈ میں تھی۔
”میں اس سے کیا بات کروں؟” علیزہ نے اچانک ہیئر برش ڈریسنگ ٹیبل پر پٹختے ہوئے شہلا کی طرف مڑ کر کہا۔
”کیا ڈسکس کروں اس سے؟”
شہلا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس سے بات کروں یا پھر اظہار محبت کرنے کے لیے کہ مجھے منگنی ہوتے ہی آپ سے محبت ہو گئی ہے اور آپ جیسا آدمی میں نے پہلے زندگی میں نہیں دیکھا نہ ہی آپ سے پہلے میں نے کسی سے۔” وہ بات کرتے کرتے اچانک رک گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔



شہلا نے اسے مڑ کر ایک بار پھر ہیئر برش اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں جنید کسی طور پر بھی قصوروار نہیں ہے۔”
علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں نے اسے قصوروار نہیں ٹھہرایا۔”
”تمہارے رویے سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔”
”شہلا! میں جنید کو کوئی سزا دے رہی ہوں نہ ہی میں اسے قصوروار سمجھ رہی ہوں۔ میں بس اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ عرصہ کے لیے ، تب تک جب تک میں ذہنی طور پر اس کے اور اپنے تعلق کو تسلیم نہیں کر لیتی۔ مجھے کچھ وقت چاہیے، کسی کی یادوں سے نکلنے کے لیے نہیں۔ صرف اس پچھتاوے سے نکلنے کے لیے جس کا میں شکار ہوں۔”
وہ بات کرتے کرتے تھکے ہوئے انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
”کوئی شخص پچھتاوے اور احساس جرم کی اس اذیت کا اندازہ نہیں کر سکتا جس کا میں شکار ہوں۔ اس سے بات کرنے کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ کس منہ سے میں فون پر اس سے بات کروں۔ مجھے کتنی شرمندگی ہے یہ میں نہیں بتا سکتی اور تمہارا اصرار ہے میں اس سے بات کروں۔ میں کچھ عرصہ اس سے کیا کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ نانو کا اصرار تھا منگنی کر لوں۔ وہ میں نے کروا لی۔ اب مجھے آزاد چھوڑ دیا جانا چاہیے۔”
شہلا کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!