Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

جنید سے بات نہ کرنے یا اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔
منگنی کے تیسرے دن اسے کوئٹہ جانا تھا اور وہ وہاں جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کے ہاں آیا۔ اس کے رویہ سے کسی طرح بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوا کہ وہ علیزہ کے اس کا فون ریسیو نہ کرنے پر ناراض ہے۔ اس نے اس سلسلے میں سرے سے علیزہ سے کوئی بات ہی نہیں کی۔
معمول کے خوشگوار انداز میں وہ اس کے ساتھ گفتگو کرتا رہا۔ صرف واپس جانے سے پہلے اس نے لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
”میرے پیرنٹس خاصے لمبے عرصے سے میری شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ خاص طور پر میری بڑی بہن کی شادی کے بعد۔ میری فیملی روایتی قسم کی فیملی ہے جس طرح بڑے بیٹے سے بہت ساری توقعات لگائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس کی بیوی سے بھی خاصی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ شعوری طور پر یا لاشعوری طور پر۔”



وہ چند لمحوں کے لیے رکا، باقی لوگ لاؤنج سے نکل چکے تھے صرف وہی دونوں ابھی اندر تھے، علیزہ دم سادھے اس کی بات سنتی رہی۔
”میری خواہش ہے کہ آپ ان توقعات پر پورا اتریں کیونکہ توقع اس سے وابستہ کی جاتی ہے جس سے محبت ہوتی ہے یا جسے ہم اپنے بہت قریب پاتے ہیں اور آپ ہماری فیملی کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔” وہ سنجیدگی سے کہتا گیا۔
”مجھ سے بات کرنا نہ کرنا کوئی بڑا ایشو نہیں ہے لیکن میں یہ چاہوں گا کہ آپ میری فیملی کے ساتھ رابطے میں رہیں۔ کوئی برائی نہیں ہے اگر آپ ان کے فون ریسیو کر لیں یا ان سے تھوڑی بہت گپ شپ کر لیں یا ان کی دعوت پر ہمارے گھر آ جائیں۔ اس سے خوشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔ آپ کو مجبور نہیں کر رہا لیکن آپ میری درخواست مان لیں گی تو مجھے اچھا لگے گا۔”
وہ اپنی بات کے اختتام پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ باہر نکل گیا۔ علیزہ قدم نہیں ہلا سکی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!