Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

علیزہ اخبار کے پولیٹیکل پیجز سے وابستہ نہیں تھی۔ وہ سوشل ایشوز پر آرٹیکلز لکھتی تھی اور مختلف تقریبات کی کوریج بھی کرتی اور ان تقریبات کو کور کرنے کے دوران اسے جرنلسٹس کے ساتھ لوگوں کے غیر معمولی رویے پر حیرت ہوتی۔
اخبار میں لگنے والی ایک سرخی لوگوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتی تھی۔ فرنٹ پیج نیوز آئٹم بننے کے لیے لوگ کیسی کیسی حرکات اور کیسے کیسے بیانات دینے پر اتر آتے تھے ۔ اخبار میں آنے والا نام ایک عام اور غیر معروف آدمی کو معروف کر دیتا تھا، مسلسل خبریں چھپتے رہنے سے کسی شخص کو جہاں لوگوں کی یادداشت سے اوجھل نہ ہونے کی سہولت رہتی تھی، وہیں انگلش اخبار میں چھپنے والی خبر اس کلاس تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی تھی جسے رولنگ یا ایلیٹ کلاس کہا جاتا ہے۔
میڈیا کی صحیح طاقت کا اندازہ اسے اس بڑے اخبار سے منسلک ہونے کے بعد ہی ہوا تھا، جہاں اخبار کو اشاعت اور سرکولیشن کے لیے مختلف لوگوں کے اشتہارات پر انحصار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ نتیجہ کے طور پر اخبار کسی کے ہاتھ کا کھلونا بن سکتا تھا نہ ہی کسی کی انگلیوں پر نچائی جانے والی کٹھ پتلی، کم از کم علیزہ کا یہی خیال تھا۔
فیئر اور Factual جرنلزم کا بانی ہونے کا دعویٰ کرنے والا اخبار حکومتی پالیسیوں پر اپنے بے لاگ اور کڑے تبصروں اور جائزوں کی وجہ سے ان چند اخبارات میں شامل تھا جن کی وجہ سے حکومت ہمیشہ مشکل میں رہتی تھی اور جس میں شائع ہونے والی خبر یا بات کے مستند نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔



ڈپریشن اور اپنے Sense of Loss (احساس زیاں) سے نجات کی کوشش کے لیے جوائن کیا جانے والا اخبار اس کے لیے ایک ایسا ذریعہ بن گیا تھا جس سے وہ دوسروں کے ڈپریشن اور Sense of Loss کو کم کرنے کے لیے کچھ کر سکتی تھی۔
چھ سات ماہ کے دوران اس نے اخبار کے سوشل ایشوز کے ایڈیشن میں اپنے آرٹیکلز سے اپنا اعتبار اسٹیبلش کر لیا تھا اور اپنے نام سے ملنے والی یہ شناخت اس کے لیے Source of Strength ثابت ہو رہی تھی۔ وہ سوشیالوجی میں پڑھے جانے والے فلسفے اور تھیوریز کو موجودہ دور کے حالات و واقعات پر لاگو کرکے نتائج اخذ کرنے اور تبصرے کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ اخبار کے ذریعے ملنے والے Exposure سے اسے یہ اندازہ تو ہو گیا تھا کہ پاکستان کے سوشل سیکٹر کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنی وہ کبھی سوشیالوجی کی مختلف کتابوں میں کیے جانے والے اعداد و شمار سے جان سکی تھی۔
بعض حالات اور جگہوں میں تو سماجی عدم مساوات اور محرومیوں کی کہانی خوفناک حد تک تکلیف دہ ہے۔ Haves اور Have-nots کے درمیان حائل خلیج جتنی وسعت اب اختیار کر گئی تھی، اتنی پہلے کبھی نہیں بڑھی تھی۔
ہر آرٹیکل اور رپورٹ اتنے Sordid facts سامنے لے کر آتے تھے کہ بعض دفعہ اسے اس بے خبری پر حیرت ہوتی جس کا شکار ایلیٹ کلاس تھی یا پھر شایدپاکستان کا ہر وہ شہری جو جائز ناجائز ذرائع سے اپنے آپ کو Establish کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
تیسری دنیا اور اس سے منسلک ساری ٹرمز پہلے اس نے کتابوں سے پڑھی تھیں یا پروفیسرز سے سنی تھیں۔ اب وہ انہیں پریکٹیکل لائف میں اپنے سامنے دیکھ رہی تھی۔ ”ترقی پذیر” ہونے کا صحیح مطلب اسے اب سمجھ میں آتا تھا۔ جب وہ اکنامکس سروے کے سوشل سیکٹر میں حکومت کے دیئے جانے والے ”سرکاری” اعدادوشمار کا موازنہ ”غیر سرکاری” تنظیموں کے اکٹھے کیے جانے والے اعدادوشمار کے ساتھ کرتی ۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی اب بھی چالیس فیصد لوگوں کی ہی تھی۔ کئی ہزار دیہات اب بھی بجلی اور گیس کے بغیر ہی تھے۔ لٹریسی ریٹ کا گراف اب بھی کوئی واضح تبدیلی نہیں دکھا رہا تھا۔
Human developmentکے قلعے اب بھی صرف ہوا میں ہی تعمیر کیے جا رہے تھے۔ لوگوں کے سماجی رویے بھی بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے اور ایسی صورت حال میں ایک آرٹیکل لکھنا کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتا تھا مگر کم از کم یہ اسے اپنا نقطہ نظر لوگوں تک پہنچانے میں مدد ضرور دے رہا تھااسے یہ سوچ کر حیرت ہوتی کہ بعض دفعہ صرف دوسروں تک اپنی بات پہنچا دینا کتنا دل ہلکا کر دیتا ہے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی۔



جنید کی امی بھی کسی نہ کسی حد تک سوشل ورک میں انوالو رہی تھیں اور علیزہ کی ان سے اس بات پر گفتگو ہوتی رہتی۔ اس کے چند کولیگ چند این جی اوز کے ساتھ منسلک تھے اور ایک ویلفیئر ہوم کی تعمیر کے لیے سرگرداں تھے اور علیزہ نے ان کے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے جنید کے ذریعے اس عمارت کا نقشہ بنوا دیا تھا۔
جنید صرف اسی کام میں اس کا مددگار نہیں رہا تھا، پچھلے چھ آٹھ ماہ میں وہ اور بھی بہت سے مواقع پر اس کی مدد کرتا رہا تھا۔ چاہے یہ رپورٹس اور آرٹیکلز کے لیے ریفرنسز کا معاملہ ہو یا پھر کوئی دوسری مدد۔ اس کا سوشل سرکل خاصا وسیع تھا اور اس سوشل سرکل میں ہر فیلڈ کے لوگ شامل تھے۔ وہ اس کا کام خاصا آسان کر دیا کرتا تھا مگر بڑے غیر محسوس طریقے سے اور اس تعاون نے بڑے عجیب سے انداز میں دونوں کے درمیان موجود رشتے کو مضبوط کیا تھا۔ علیزہ کو کبھی اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ عمر کے علاوہ کسی اور شخص پر اس طرح اعتماد کرے گی مگر جنید نے بڑی عمدگی کے ساتھ عمر کی جگہ لے لی تھی۔
”زندگی میں ہر چیز ہر شخص، ہر فیلنگ کا Replacement (متبادل) موجود ہوتا ہے اور جو لوگ کہتے ہیں ایسا نہیں ہوتا وہ بکواس کرتے ہیں۔”
کئی بار اسے عمر کی کہی ہوئی بات یاد آتی اور چند لمحوں کے لیے خود کو جیسے کسی کٹہرے میں پاتی تب اس نے عمر کی بات سے اختلاف کیا تھا۔ بہت ناراض ہو کر
”آپ غلط کہتے ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی کا بھی متبادل نہیں ہو سکتا۔ آپ جسے متبادل کہتے ہیں وہ دراصل کمپرومائز ہوتا ہے ورنہ ایک چیز ایک شخص یا ایک جذبے کے ختم ہو جانے کے بعد کوئی دوسرا اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ایک ہاتھ کٹ جائے تو کیا اس کی جگہ دوسرا ہاتھ اگ سکتا ہے؟” اس نے اپنی جانب سے بڑی مضبوط دلیل دینے کی کوشش کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!