Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”بازار سے مل جاتا ہے نقلی ہاتھ۔” عمر متاثر ہوئے بغیر بولا۔
”میں اصلی ہاتھ کی بات کر رہی ہوں۔ کیا نقلی ہاتھ اس طرح کام کر سکتا ہے جس طرح اصلی ہاتھ۔”
”مگر کام تو کرتا ہے۔ اگر انسان کا دل خراب ہو جائے تو کسی دوسرے کا دل ٹرانسپلانٹ کر دیتے ہیں۔ کیا یہ Replacement نہیں ہے۔ دل سے زیادہ اہم تو جسم کا کوئی دوسرا حصہ نہیں ہے اگر اس کی Replacement ہو سکتی ہے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔”
”بات اہمیت کی نہیں ہے۔ آپ کا پوائنٹ تھا کہ ”ہر چیز” میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ ہر چیز نہیں۔”
”سائنس ہاتھ کو Cultureکرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ جس دن یہ کوشش کامیاب ہو گئی اس دن جسم کے دوسرے بہت سے حصوں کی طرح ہاتھ بھی اگا لیے جائیں گے۔ Replacement سائیکل پوری پوری ہو جائے گی۔” اس کے لہجے میں ہنوز اطمینان تھا۔
چیزوں کی بات چھوڑیں۔ انسانوں کی بات کریں اگر کسی عورت کا شوہر مر جائے تو کیا اس کی کمی پوری ہو سکتی ہے۔ اس کی Replacementمتبادل ہو سکتا ہے؟”



”بالکل ہو سکتا ہے۔”
”کیسے…؟”
”دوسرے شوہر سے۔”
”اور اگر پہلے شوہر سے اسے محبت ہو تو؟”
”دوسرے سے بھی ہو جائے گی۔”
”ایسا نہیں ہوتا۔”
”کم از کم جس دنیا میں میں رہتا ہوں، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ فرض کرو، دوسرا شوہر ساری دنیا کی آسائش لا کر اس کے سامنے رکھے تو کیا پھر بھی اسے اس سے محبت نہیں ہو گی۔”
”میں آپ کو اپنی بات کبھی نہیں سمجھا سکتی۔ آپ ہر بات کو اور طرح سے لیتے ہیں۔” علیزہ نے کچھ بے بس ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ کا پوائنٹ منطقی ہے ہی نہیں علیزہ بی بی یہ خواتین کی سائیکی کا حصہ ہوتا ہے۔ Replacement پرابلم Graveyard is full of indispensable peopleایسے لوگ جن کے بارے میں ہمیں خوش فہمی رہتی ہے کہ ان کا کوئی Replacement نہیں ہے تو کیا دنیا ان کے بغیر بھی اسی طرح نہیں چل رہی۔ چل رہی ہے کیونکہ نیچرل سائیکل کے تحت ان کے متبادل آ گئے کچھ اور لوگ ان کی جگہ آگئے۔ اسی کام کو کرنے کے لیے اسی رول کو سرانجام دینے کے لیے۔”
اس نے بڑی بے نیازی سے کندھے جھٹکتے ہوئے بات ختم کی تھی۔ علیزہ اس سے متفق نہیں تھی مگر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
اور اب جنید کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے عمر کی وہی Replacement theory (نظریہ متبادل) یاد آئی ۔ کیا واقعی ہر چیز کی Replacement ہو جاتی ہے۔ ہر فیلنگ کی، ہر شخص کی؟ وہ کئی بار خود سے پوچھتی اور پھر ذہن میں گونجنے والے جواب اور آوازیں اسے پریشان کرنے لگتیں۔
کمرے کے دروازے پر یکدم دستک کی آواز سنائی دی۔ علیزہ چونک گئی۔ اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا سائیڈ ٹیبل پر گلاس میں پڑے ہوئے گلاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ دستک کی آواز دوبارہ سنائی دی تھی۔
”جنید صاحب کا فون ہے۔” دروازہ کھولنے پر ملازم نے اسے اطلاع دی۔
”تم چلو، میں آتی ہوں۔” اس نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔



چند منٹوں کے بعد وہ لاؤنج میں فون پر جنید سے بات کر رہی تھی۔ دس پندرہ منٹ اس سے باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ واپس اپنے بیڈ روم میں آگئی اور تب ہی اسے اس آرٹیکل کا خیال آیا جو صالحہ نے اسے دیا تھا۔ اس نے آرٹیکل کو نکال لیا۔
اپنے بیڈ پر نیم دراز ہوتے ہوئے اس نے آرٹیکل کو پڑھنا شروع کیا۔ اس کے چہرے پر شکنیں ابھرنے لگی تھیں۔ الجھن اور اضطراب…
چند منٹوں بعد وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ یکدم بہت زرد نظر آنے لگا تھا۔
ہاتھ میں پکڑا ہوا آرٹیکل اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور اپنی پیشانی کو مسلنے لگی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا موبائل اٹھا لیا اور صالحہ کا نمبر ڈائل کیا۔
”ہیلو! صالحہ میں علیزہ بول رہی ہوں۔ ” علیزہ نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”ہاں علیزہ ! وہ آرٹیکل پڑھ لیا؟” صالحہ کو اس کی آواز سنتے ہی یاد آیا۔
”ہاں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی پڑھا ہے اور میں اس کے بارے میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔” علیزہ نے کچھ بے چینی سے کہا۔
”ہاں بولو، کیا کہنا چاہتی ہو، کیا تمہیں آرٹیکل پسند نہیں آیا؟” صالحہ نے پوچھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!