Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”صالحہ! تم نے یہ آرٹیکل کیوں لکھا ہے؟” علیزہ نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”کیا مطلب کیوں لکھا ہے، کیا مجھے نہیں لکھنا چاہیے تھا۔” وہ اس کے سوال پر حیران ہوئی علیزہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ تمہیں نہیں لکھنا چاہیے تھا، میں صرف یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم نے کیوں لکھا ہے؟”
”بھئی! کیوں لکھتے ہیں ایسے آرٹیکلز…عوام تک حقائق لانے کے لیے، انہیں تصویر کا اصلی رخ دکھانے کے لیے، ان لوگوں کی اصلیت سے آگاہ کرنے کے لیے جو ان ہی کے ٹیکسوں سے ان کے حکمران بنے بیٹھے ہیں۔” صالحہ نے ہمیشہ کی طرح اپنی تقریر کا آغاز کر دیا۔
”مگر یہ سب کچھ سامنے لانے کے لیے الزام تراشی ضروری ہے؟” علیزہ نے اس کی بات کو بے صبری سے کاٹتے ہوئے کہا۔
”الزام تراشی کیا مطلب؟ کون سی الزام تراشی؟” صالحہ اس کے سوال پر کچھ چونکی۔
”میں تمہارے آرٹیکل کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
”میرا آرٹیکل ! فار گاڈسیک علیزہ! میرے آرٹیکل میں کون سی الزام تراشی تمہیں نظر آگئی ہے۔” صالحہ نے بے اختیار اس کی بات پر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔



”جو کچھ تمہارے آرٹیکل میں ہے، مجھے وہ سچ نہیں لگتا۔” علیزہ نے کہا۔
”جو کچھ میرے آرٹیکل میں ہے، وہ حقائق کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ تمہیں وہ سب جھوٹ لگا ہے اور شاید پہلی بار ہوا ہے۔” صالحہ نے کہا۔
”تم نے اپنے آرٹیکل میں صرف الزامات لگائے ہیں، کوئی ثبوت نہیں دیا۔ اتنا غیر محتاط ہو کر کچھ بھی لکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اگلے دن یا تو اخبار کو معذرت کرنی پڑے یا پھر کورٹ میں کیس چلایا جائے۔” علیزہ نے کہا۔
”میرے آرٹیکل میں کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں ہے جو جھوٹ ہو یا جس کا میرے پاس ثبوت نہ ہو مگر ہر ثبوت آرٹیکل میں نہیں دیا جا سکتا اور جہاں تک معذرت یا کسی کا تعلق ہے تو اس شخص میں اتنی ہمت کبھی ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ یہ دونوں کام کرے کیونکہ میرے تمام الزامات درست ہیں اور وہ انہیں کسی طور پر بھی غلط ثابت نہیں کر سکتا۔” صالحہ نے بڑے پراعتماد انداز میں کہا۔
”تمہیں یہ ساری معلومات کہاں سے ملی ہیں؟” علیزہ نے اس کی بات پر کچھ تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے کہا۔
”کم آن علیزہ! کم از کم تم تو ایسی بچوں جیسی باتیں نہ کرو، ہم دونوں جرنلسٹ ہیں اور تم جانتی ہو کہ جرنلسٹس کے اپنےsource of information (معلومات کے ذرائع) ہوتے ہیں۔
”اور یہ کبھی کبھار غلط معلومات اور خبریں بھی دے دیتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں بالکل دے دیتے ہیں مگر کم از کم اس شخص کے بارے میں میرے پاس جتنی بھی معلومات ہیں وہ بڑے باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور وہ غلط نہیں ہیں۔ غلط ہو ہی نہیں سکتیں۔” صالحہ نے اسی کے انداز میں اپنی بات پر زور دیا۔
”پھر بھی صالحہ! تمہیں ایک بار پھر ان تمام الزامات کی صداقت کو پرکھ لینا چاہیے۔” علیزہ نے اس بار قدرے کمزور آواز میں کہا۔
”اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب میں کہہ رہی ہوں کہ یہ باوثوق ذرائع سے آئی ہیں تو تم مان لو کہ یہ واقعی باوثوق ذرائع سے آئی ہیں اور غلط نہیں ہو سکتیں۔” صالحہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔
”مگر مجھے حیرت ہے کہ آخر تم اس آرٹیکل میں موجود الزامات پر اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو۔ اس سے پہلے تو کبھی تم نے اس طرح کی کسی آرٹیکل پر کبھی اعتراض کیا نہ ہی مجھے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے پھر اس بار کیا خاص بات ہے۔”



صالحہ کچھ متجسس انداز میں کہا اور پھر بات کرتے کرتے چونک سی گئی۔ ”کیا تم اس شخص کو ذاتی طور پر جانتی ہو؟”
علیزہ اس اچانک پوچھے گئے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے میں اسے ذاتی طور پر کیسے جان سکتی ہوں، میں تو صرف اس لیے تمہیں خبردار کر رہی ہوں کہ تمہارے لگائے گئے الزامات بہت سنگین ہیں اور اخبار میں یہ آرٹیکل شائع ہو جانے کے بعد تمہیں کسی پریشانی کا سامنا بھی کرناپڑ سکتا ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”یہ زین العابدین کی دی گئی معلومات پر مشتمل آرٹیکل ہے اور زین العابدین کتنا پروفیشنل ہے اور اس کی دی گئی انفارمیشن کس قدر authentic(معتبر) ہو سکتی ہے تم خود اندازہ لگا سکتی ہو۔”
صالحہ نے اپنے اخبار کے سب سے اچھے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ کا نام لیتے ہوئے کہا۔
علیزہ کا دل بے اختیار ڈوبا۔ ”زین العابدین…؟ کیا وہ اس پر کام کر رہا ہے؟”
”فی الحال نہیں، مگر یہ اس کی اگلی اسائنمنٹ ہے۔” صالحہ نے علیزہ کو آگاہ کیا۔
”مگر زین العابدین اس معاملے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے، ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات پر کام کرنا تو کبھی اس کا خاصا نہیں رہا۔” علیزہ نے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ کہا۔
”یہ تو زین العابدین ہی بتا سکتا ہے۔ مجھے تو بس سنڈے ایڈیشن کے لیے ایک آرٹیکل لکھنا تھا اور اس کے لیے مجھے انفارمیشن کی ضرورت پڑی تو کسی نے مجھے ٹپ دی کہ زین العابدین کی اگلی اسائنمنٹ یہی ہو گی اور وہ یقیناً اس بارے میں میری مدد کر سکتا ہے۔” صالحہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ ”جب میں نے زین العابدین سے بات کی تو اس نے مجھے خاصی معلومات فراہم کیں۔” صالحہ خاموش ہو گئی۔
علیزہ موبائل کان سے لگائے گم صم بیٹھی رہی۔
”ہیلو علیزہ۔” صالحہ نے اسے خاموش پا کر مخاطب کیا۔
”ہاں میں سن رہی ہوں۔” وہ غائب دماغی کے عالم میں بولی۔
”کیا سن رہی ہو؟ میں تو اپنی بات ختم بھی کر چکی ہوں۔” صالحہ نے جتایا۔ ”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟” اسے اچانک تشویش ہوئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!