Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ہاں…نہیں، سر میں کچھ درد محسوس ہو رہا تھا۔” علیزہ کو اچانک اپنی گفتگو کی بے ربطگی چھپانے کا بہانہ مل گیا۔
”اچھا تو تم سو جاتیں۔” صالحہ نے کہا۔
”ہاں ، مگر مجھے تمہارا آرٹیکل یاد آگیا۔ تم نے کہا تھا کہ میں آج ہی اسے پڑھ کر تمہیں اس کے بارے میں رائے دوں۔” علیزہ نے کہا۔
”اتنی ایمرجنسی بھی نہیں تھی، تمہاری طبیعت اگر ٹھیک نہیں تھی تو تم اسے نہ پڑھتیں کل پڑھا جا سکتا تھا۔ بہرحال اب تم نے پڑھ لیا ہے تو تم مجھے بتاؤ کیا اس میں کچھ مزید ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔” صالحہ نے کہا۔
”اپنی رائے تو میں نے تمہیں دے دی ہے۔ مجھے الزامات کچھ زیادہ سنگین لگے لیکن اگر تمہیں یقین ہے کہ وہ ٹھیک ہیں اور بعد میں ان کی وجہ سے تمہیں کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا تو ٹھیک ہے تم اسے بھجوا دو۔” علیزہ نے کہا۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے۔ اس اسائنمنٹ پر زین العابدین کام کرنے والا ہے اور اس کے سامنے تو میرا آرٹیکل اور اس میں شامل الزامات کچھ بھی نہیں ہیں، وہ تو جس طرح گڑے مردے اکھاڑتا ہے، تم اچھی طرح جانتی ہو۔” علیزہ کو دوسری طرف سے صالحہ کی ہنسی کی آواز سنائی دی۔
”ٹھیک ہے ، پھر تم اسے بھجوا دو۔” علیزہ نے اپنے لہجے کے اضطراب کو چھپاتے ہوئے کہا۔
”تم صبح آرہی ہو؟” صالحہ نے اس سے پوچھا۔
”کہاں؟” علیزہ نے ایک بار پھر غائب دماغی سے کہا۔



”بھئی آفس اور کہاں۔”
”ہاں، آفس تو یقیناً آؤں گی تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” علیزہ نے کہا۔
”نہیں، میں نے سوچا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو شاید تم صبح نہ آؤ۔” صالحہ نے کہا۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یہ کس نے کہا، میری طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے۔” علیزہ نے بے اختیار کہا۔
”ابھی تم نے خود مجھ سے کہا ہے۔” صالحہ نے حیرت سے کہا۔
”ہاں! بس میرے…اتنی زیادہ طبیعت خراب نہیں ہے۔ چلو خیر، صبح بات کریں گے۔”
وہ بات کرنے کے دوران مسلسل اٹکتی رہی اور پھر اس نے بات ختم کرنا مناسب سمجھا، وہ نہیں چاہتی تھی صالحہ اس کے اس رویے سے مزید اندازے لگانے کی کوشش کرے۔
موبائل بند کرکے اس نے بے دلی سے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا اور ایک بار پھر اس آرٹیکل کو دیکھنے لگی۔ اس کی نیند یکدم جیسے غائب ہو گئی تھی۔
”زین العابدین! ” وہ آرٹیکل پر نظر دوڑاتے ہوئے بڑبڑائی۔ صحافی حلقوں میں وہ شخص پینڈورا باکسز کھولنے میں شہرت رکھتا تھا۔ آج تک وہ جن اسائنمنٹس پر کام کر چکا تھا ان میں کوئی بھی اس کے فراہم کیے جانے والے حقائق کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کر سکا تھا۔ نہ ہی ایسے کسی اسائنمنٹ کے بعد اس کے اخبار کو کبھی کسی معذرت کی ضرورت پڑی تھی۔ وہ بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں، صنعت کاروں اور بیورو کریٹس کے کیریئر ڈبونے میں شہرت رکھتا تھا اس کے ذرائع معلومات کون تھے یا کیا تھے یہ کوئی نہیں جانتا تھا مگر وہ اپنی سپیشل رپورٹس میں جو کچھ پیش کیا کرتا تھا۔ وہ حقائق کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ تلخ اور گھناؤنے حقائق۔
پینتیس سالہ زین العابدین نے اپنے بارہ سالہ کیریئر میں اے پی این ایس کے بہت سارے ایوارڈز جیتے تھے اور وہ صرف ملکی طور پر ہی نہیں بین الاقوامی طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلس ٹائمز اور دی آبزرور جیسے اخبارات پاکستان کے بارے میں شائع کی جانے والی خبروں اور رپورٹس میں زین العابدین کے آرٹیکلز اور رپوٹس کا حوالہ دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے تھے۔
چار دفعہ ہونے والے قاتلانہ حملوں نے زین العابدین کی ساکھ میں اور اضافہ کر دیا تھا، کیریئر کے شروع میں اپنی رپورٹس پر اٹھنے والے ہنگامے کے بعد اسے دو اخبارات سے الگ کر دیا گیا تھا مگر جب انہی رپورٹس پر اے پی این ایس ایوارڈ جیتنے کے علاوہ بین الاقوامی اخبارات میں ان رپورٹس کی گونج سنائی دی تو ملک کے چند دوسرے بڑے انگلش اخبارات نے زین العابدین کو مستقل طور پر اپنے ساتھ منسلک ہونے کی پیش کش کی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ زین العابدین نے ایک اخبار کی آفر قبول کر لی اور پھر گزرنے والا ہر دن اس کی ساکھ اور نام کو پہلے سے بہتر بناتا گیا۔



زین العابدین اب بین الاقوامی فورمز میں بلوایا جاتا جہاں وہ پاکستان میں جرنلزم کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات اور حادثات کے ساتھ ساتھ حالات بھی سناتا۔ اس کی ساکھ اور نام دن بدن بہتر ہوتا جاتا۔ ہر اس شخص اور ادارے کو خاص طور پر بدقسمت سمجھا جاتا جس پر زین العابدین کی نظر ٹھہر جاتی۔ ہر ایک کو اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ شخص اب اپنے کیریئر کی آخری سیڑھی پر کھڑا زین العابدین کے ہاتھوں منہ کے بل گرنے کا منتظر ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے سیاست دان زین العابدین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔
وہ صحافت کی دنیا کا ایک ایسا ”گلیور” بن چکا تھا جو بونوں کی سرزمین میں دندناتا پھرتا تھا۔ عمر جہانگیر جیسے چھوٹے موٹے بیوروکریٹس اس کی نظر میں کبھی نہیں آتے تھے لیکن اب اگر زین العابدین نے عمر جہانگیر پر کام کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تو علیزہ اندازہ کر سکتی تھی کہ آنے والے دن عمر جہانگیر اور اس کے خاندان کے لیے کیا کچھ لے کر آنے والے تھے۔ وہ جانتی تھی آنے والے دنوں میں زین العابدین عمر جہانگیر کو فرنٹ پیج نیوز بنانے والا تھا اور زین العابدین کے ساتھ ہونے والی یہ ٹسل عمر جہانگیر کے کیریئر کے خاتمے کی پیش گوئی تھی۔
اسے صالحہ کے آرٹیکل میں موجود عمر جہانگیر پر لگنے والے تمام الزامات میں سے کسی پر یقین نہیں آیا تھا مگر صالحہ کے منہ سے یہ سن کر کہ یہ تمام معلومات اسے زین العابدین نے پہنچائی تھیں، اسے یہ تو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سب کچھ جھوٹ نہیں ہو سکتا مگر اس کے باوجود وہ عمر اور اپنی فیملی کے لیے پریشان تھی۔ زین العابدین بال کی کھال اتار دیا کرتا تھا۔ وہ متعلقہ شخص کے ہر رشتے دار کے بارے میں انوسٹی گیشن کیا کرتا تھا اور پھر بڑے دھڑلے سے ہر شخص کا کچا چٹھا اخبارات میں پیش کر دیا کرتا تھا۔ Nothing but the truthکے عنوان کے ساتھ اور وہ اپنی زندگی اور کیریئر کے اس سٹیج پر اپنی فیملی یا فیملی کے کسی شخص کو اخبارات کے صفحات پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ چاہے وہ شخص عمر ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ سب کچھ ہی کیوں نہ کر رہا ہوتا جو عمر کر رہا تھا وہ صالحہ کے آرٹیکل کو پکڑے خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھی رہی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!