دوسری طرف سے عمر کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ”عیش …؟ کون سا عیش …آپ جیسے لوگوں سے گالیاں کھانا عیش ہے۔”
”میں آپ سے ۔۔۔”
دوسری طرف سے عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے بارے میں اب اخبار میں کچھ اور شائع نہیں ہونا چاہئے …ورنہ آپ کو اور آپ کے اخبار کو اس کی خاصی بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔”
اس سے پہلے کہ صالحہ کچھ کہتی دوسری طرف سے لائن منقطع کر دی گئی۔ صالحہ نے برہمی سے میز پر ہاتھ مارا۔
”تم اس شخص کا انداز دیکھو …کون کہے گا کہ یہ سول سرونٹ ہے …اور یہ لوگ نکلتے ہیں عوام کو نظم و ضبط سکھانے …مائی فٹ۔” اس نے غصے کے عالم میں میز پر ایک بار پھر ہاتھ مارا۔ ”اب تم دیکھنا میں اس کے ساتھ کرتی کیا ہوں …اس کی ساری گفتگو کو اخبار میں شائع نہ کیا تو پھر کہنا بلکہ اس کال کی ایک ریکارڈنگ ہوم آفس کو بھی بھجواؤں گی …عمر جہانگیر اپنے آپ کو آخر سمجھتا کیا ہے۔”
علیزہ چپ چاپ صالحہ کو مشتعل ہوتے دیکھتی رہی۔
”اس کا فائدہ کیا ہو گا؟” علیزہ نے کچھ دیر صالحہ کو جھجک کر چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”کس کا فائدہ کیا ہو گا؟” صالحہ نے یک دم رک کر اس سے پوچھا۔
”عمر اور اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کرنے کا؟”
”میں عمر جہانگیر کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوئی۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ جان کر عمر جہانگیر کی صحت پر کیا فرق پڑے گا کہ تم اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں۔”
”اگلی بار وہ مجھے فون کرنے کی جرأت تو نہیں کرے گا۔”
”تمہارا خیال ہے یہ گفتگو شائع ہونے سے وہ ڈر جائے گا؟” علیزہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”ڈر جائے گا؟ وہ ڈر گیا ہے۔ ورنہ مجھے فون کبھی نہ کرتا۔” صالحہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اور وہ بھی یہاں آفس میں۔”
علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا، اس کا دل چاہا وہ صالحہ سے کہے کہ عمر جہانگیر ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر خوف زدہ ہونے والا شخص نہیں ہے۔ اس کی پشت پر موجود لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ایسے چھوٹے موٹے اسکینڈلز پر پریشان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ایسے اسکینڈلز اس کے کیرئیر پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
”صالحہ! تم آخر عمر جہانگیر کے بارے میں بار بار آرٹیکلز کیوں لکھ رہی ہو؟” علیزہ نے کچھ دیر بعد کہا صالحہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں۔” صالحہ کو جیسے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ”کیا تم نہیں جانتیں کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں؟” علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر کچھ نہیں بول سکی۔
”میں چاہتی ہوں، عمر جہانگیر کو اس کے کرتوتوں کی سزا ملے۔” وہ اسی طرح بغیر لحاظ کئے بول رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں …اس کی فیملی رسوا ہو ۔۔۔” وہ بغیر رکے بولتی جا رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں لوگوں کو ان کے اصلی چہروں کی شناخت ہو سکے۔” صالحہ کے لہجے میں نفرت جھلک رہی تھی۔ علیزہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”ایک بات پوچھوں تم سے؟” کچھ دیر کے بعد اس نے بڑے پر سکون انداز میں صالحہ سے کہا۔
”اگر عمر جہانگیر نے تمہارے انکل کے بیٹے کو نہ مارا ہوتا تو کیا پھر بھی تم اس کے خلاف اسی طرح لکھتیں؟”
صالحہ بے حس و حرکت ہو گئی، علیزہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے جواب کی منتظر رہی۔
”تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
”میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ اگر عمر جہانگیر سے تمہاری ذاتی پر خاش نہ ہوتی تو کیا تم پھر بھی اس کے بارے میں اسی طرح آرٹیکلز پر آرٹیکلز لکھتیں؟” علیزہ کا لہجہ اب بھی بہت پر سکون تھا۔
”مجھے تمہارے سوال پر حیرت ہو رہی ہے علیزہ ! کیا تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں صرف ذاتی دشمنی کی وجہ سے عمر جہانگیر کے خلاف لکھ رہی ہوں؟” صالحہ کے چہرے پر اب ناراضی جھلک رہی تھی۔
”کیا ایسا نہیں ہے؟” علیزہ نے کچھ بے نیازی برتتے ہوئے کہا۔
”نہیں …ایسا نہیں ہے۔” صالحہ نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”حیرت ہے۔” علیزہ نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔ ”میرا خیال تھا کہ تم صرف ذاتی چپقلش کی وجہ سے اس کے خلاف لکھ رہی ہو؟”
”یہ خیال کیوں آیا تمہیں؟”
”تم نے خود مجھے اپنے انکل، ان کے بیٹے اور دوستوں کا واقعہ سنایا تھا۔ اب وہ قصہ سننے کے بعد میں اور کس نتیجے پر پہنچ سکتی تھی۔”