Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں نے تمہیں وہ واقعہ اس لئے نہیں سنایا تھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ میں صرف اپنی دشمنی کی خاطر اس شخص کو بد نام کر رہی ہوں۔ اس کے خلاف جو کچھ بھی میں لکھ رہی ہوں وہ ۔۔۔” علیزہ نے صالحہ کی بات کاٹ دی۔
”ہاں میں جانتی ہوں کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ بھی لکھ رہی ہو، وہ سب سچ ہے۔ سو فی صد نہ سہی۔ نوے فی صد سہی۔ تم اس کے خلاف سچ ہی شائع کرا رہی ہو۔ مگر کیوں، ایسے سچ تو ہر بیورو کریٹ کے ساتھ منسلک ہیں،پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ تم کسی اور کے بارے میں بھی تو لکھو۔”
”میں نے رضی محمود کا ذکر بھی کیا ہے اپنے پہلے آرٹیکل میں، کیا تم اسے بھول گئی؟” صالحہ نے اسے یاد دلایا۔
”’صرف ایک آرٹیکل میں، باقیوں میں کیوں نہیں …کیا رضی نے اور کوئی غلط کام نہیں کیا؟” وہ سنجیدگی سے بولتی گئی۔
”تم اس کی حمایت کیوں کر رہی ہو؟”
”حمایت نہیں کر رہی ہوں، میں بھی تمہاری طرح سچ ہی بول رہی ہوں۔ وہی جو محسوس کر رہی ہوں۔”



”اگر بات بیورو کریٹس اور بیورو کریسی کی ہی کرنی ہے تو پھر سب کی کرنی چاہیے۔ ہر برائی کو سامنے لانا چاہیے۔ ہر برے شخص پر تنقید کرنی چاہئے۔” وہ پر سکون لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی عمر جہانگیر کی وکالت کر رہی تھی۔
”مجھے تمہاری نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ تم یقیناً بیورو کریسی کی برائیوں کے خلاف ہی لکھنا چاہ رہی ہو گی۔ اس کرپٹ سسٹم اور اسے چلانے والوں کو ہی بے نقاب کرنا چاہتی ہو گی۔ تو پھر باقیوں کے بارے میں بھی لکھو۔” علیزہ نے اپنے سامنے پڑا ہوا اخبار اس کی طرف میز پر کھسکا دیا۔
”یہ خبر پڑھو …ایک غریب پھل فروش کو چند پولیس والوں نے پکوڑنے تلنے والے کی کڑھائی میں پھینک کر جلا دیا۔ پھل فروش نے ہاسپٹل میں اپنے نزعی بیان میں بتایا ہے کہ پولیس والے اس سے پھل لینے کے بعد قیمت دئیے بغیر جا رہے تھے جب اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا اور پاس موجود تیل سے بھری کڑھائی میں دھکیل دیا۔” وہ بغیر رکے کہہ رہی تھی۔ ”کل اس پھل فروش کی موت ہو گئی اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ وہ پھل فروش ہیروئن کا کاروبار کرتا تھا اور اس دن وہ تفتیش کے لئے اس کے پاس گئے اور انہوں نے اس کی تلاشی لینے پر اس کے پاس سے بڑی مقدار میں ہیروئن اور چرس بر آمد کر لی۔ پھل فروش نے گرفتاری اور اس الزام سے بچنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی اور کڑاہی میں گر گیا۔ پولیس نے اس کے خلاف منشیات فروشی اور خود کشی کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی اس خبر اور واقعے میں موجود جھوٹ اور سچ کو جانچ سکتا ہے۔ کیا اس پھل فروش کے قتل کے الزام میں پورے اسٹیشن کے عملے پر مقدمہ نہیں چلنا چاہئے۔
ایس پی، ڈی ایس پی، اور ایس ایچ او کے خلاف نہیں لکھا جانا چاہئے۔ جو سب آنکھیں بند کئے سو رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی لکھو، اس ایس پی اور ایس ایچ او کے بارے میں بھی صالحہ پرویز کو آرٹیکلز لکھنے چائیں، تا کہ اس شخص کے لواحقین کو بھی ویسا ہی انصاف مل سکے جیسا انصاف تم اپنے انکل کے بیٹے کے لئے چاہتی ہو۔ مگر ۔۔۔” علیزہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”مگر اس پھل فروش کی کسی بھتیجی کا نام صالحہ پرویز تو نہیں ہو گا جو اس کے بارے میں آرٹیکلز لکھے یا انصاف مانگنے کی جرات کرے۔ تیسری دنیا کے تیسرے درجے کا شہری۔”
”علیزہ! تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” صالحہ کا لہجہ اس بار بدلا ہوا تھا۔



”میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں صالحہ کہ تم اور میں قلم کی جس حرمت کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اب ایک کتابی بات ہے۔ ہم سچ لکھتے ہیں جب اس میں ہمارا اپنا مفاد وابستہ ہو۔ ہم جھوٹ کو بے نقاب تب کرتے ہیں جب ہمیں اس سے کچھ فائدہ ہونے کی توقع ہو۔”
”تم غلط کہہ رہی ہو علیزہ۔”
”نہیں، میں غلط نہیں کہہ رہی ہوں، ہم لوگ دوسروں میں جس پروفیشنلزم کے نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ وہ ہم میں بھی نہیں ہے۔” علیزہ اسی طرح ٹھنڈے لہجے میں کہتی جا رہی تھی۔ ”کتنے جرنلٹس واقعی پروفیشنل ہیں۔ تم انہیں انگلیوں کی پوروں پر گن سکتی ہو، اور کم از کم میں تمہیں پروفیشنل جرنلٹس میں نہیں گردان سکتی۔ چاہے تم اس بات کو کتنا ہی برا کیوں نہ سمجھو۔” علیزہ نے صاف گوئی سے کہا، صالحہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہم سب ایک Rotten system (متعفن نظام) کی پیداوار ہیں اور اسی میں رہ رہے ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنا گریبان اور دامن دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اپنے کپڑوں پر دھبے لے کر دوسروں کے داغ دکھانا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اور تم یہی کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔” علیزہ خاموش ہو گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!