”میں پروفیشنل نہیں ہوں۔ تم پروفیشنل ہو؟” علیزہ نے سر اٹھا کر صالحہ کو دیکھا، وہ بڑی عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ ”بقول تمہارے میں عمر جہانگیر سے ذاتی پر خاش رکھتی ہوں اس لئے اس کے خلاف لکھ رہی ہوں اور تمہارے نزدیک یہ پروفیشنلزم نہیں ہے۔” صالحہ نے استہزائیہ انداز میں کہا۔
”تو کیا یہ پروفیشنلزم ہے کہ تم عمر جہانگیر کو بچانے کی صرف اس لئے کوشش کر رہی ہو کیونکہ اس سے تمہاری رشتہ داری ہے۔” صالحہ نے بڑے چبھتے ہوئے انداز میں جیسے انکشاف کیا۔ علیزہ چونکے بغیر مسکرائی۔
”مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ تم میرے اور عمر جہانگیر کے رشتے کے بارے میں جانتی ہو، ہاں میں اب تک حیران تھی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تم اس رشتے کے بارے میں نہ جانتی ہو جب کہ تمہارا انفارمر زین العابدین ہے اور وہ لوگوں کے خاندانوں کو کھنگال ڈالنے کا ماہر ہے۔” علیزہ جیسے محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہاں، تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ یہ بھی پروفیشنلزم نہیں ہے اور میں نے اپنے آپ کو پروفیشنل گردانا بھی نہیں ۔ مگر تمہارا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ میں عمر جہانگیر کو بچانے کی کوشش کر رہی ہوں، میں ایسی کوئی کوشش نہیں کر رہی۔” اس کی آواز اب بھی اسی طرح پر سکون تھی۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ اس کے ساتھ دوسروں کو بھی کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔ صرف ایک عمر جہانگیر کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صرف اس کے خلاف ہی یہ Defamation campaign (ہتک آمیز مہم) کیوں چلائی جا رہی ہے۔ گڑے مردے ہی اکھاڑنے ہیں تو سب کے اکھاڑے جائیں اور پھر اس وقت تم مجھے ان لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں پاؤ گی جو کسی کو بچانے کے لئے بولیں یا لکھیں گے۔”
”تم چاہتی ہو کسی کو سزا نہیں ملی تو تمہارے کزن کو بھی نہ ملے۔” صالحہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔ ”مگر میں کہتی ہوں کہ کہیں نہ کہیں سے تو ابتدا ہونی چاہیے۔ عمر جہانگیر سے ہی سہی، اس کو سزا ملے تو شاید کسی دوسرے کو عبرت ہو۔” صالحہ نے سرد مہری سے کہا۔
”ان ساری پریکٹسز کا آغاز عمر نے نہیں کیا تھا۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے یہ سب شروع کیا۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو عمر کا دفاع کرنے پر مجبور پا رہی تھی۔
”تم صرف یہ چاہتی ہو کہ عمر کو کچھ نہ ہوتا کہ تمہاری فیملی کے بارے میں کچھ بھی اخباروں میں نہ آئے۔”
صالحہ نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں چاہتی ہوں سب کی فیملیز کے بارے میں لکھا جائے۔ سچ مچ …سب کچھ …میری تمہاری، سب کی فیملیز کے بارے میں۔ کیونکہ میں اپنی فیملی کے بارے میں رشک یا فخر جیسے کسی جذبے میں مبتلا نہیں ہوں۔” علیزہ نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ صالحہ اس کی بات پر مشتعل ہو گئی۔
”میری فیملی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ جس کے بارے میں اخباروں میں کچھ شائع ہو۔”
”کتنی عجیب بات ہے جب کہ تمہاری فیملی کے بھی بہت سے لوگ بیورو کریسی میں اور جوڈیشری میں ہیں۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے کہ وہ بالکل پاک باز ہیں۔ کوئی بری بات انہیں چھو کر نہیں گزری۔ کوئی کرپشن کوئی اسکینڈل ان کے دامن پر کہیں کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔ کیا کوئی اس بات پر یقین کرے گا صالحہ؟” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”میری طرح آخر تم بھی یہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتیں کہ تمہاری فیملی کے افراد سے بھی بہت سی غلطیاں ہوتی رہی ہوں گی بلکہ اب بھی ہو رہی ہوں گی۔”
”میں ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کر سکتی۔ اگر تمہاری فیملی کے بارے میں الزامات سامنے آ گئے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم سب کی فیملیز کو ہی اسی فہرست میں لا کھڑا کرو۔ کم از کم میں اپنی فیملی کو اس فہرست میں شامل نہیں کر سکتی جہاں تمہاری فیملی کا نام درج ہے۔” صالحہ نے کندھے اچکاتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔
”تم مجھ پر متعصب ہونے کے الزامات لگا لو …یا پھر مجھے اَن پروفیشنل ہونے کے طعنے دے لو …مگر اس سے حقیقت نہیں بدلے گی۔ میں عمر جہانگیر کے بارے میں جو کچھ لکھ رہی ہوں، وہ سچ ہے اور یہ ضروری ہے کہ اسے اس کے کئے کی سزا دی جائے۔” صالحہ نے اسی رفتار سے بولتے ہوئے کہا ”اب تم اسے ہمدردی کا نام دو یا رشتہ داری کا، بہر حال میں چاہتی ہوں کہ میرے کزن کے ساتھ ہونے والی بے انصافی کا ازالہ کیا جائے گا۔”
”تو پھر یہ قلم سے ہونے والا کوئی جہاد تو نہیں ہے جس کے بارے میں تم اور میں بلند بانگ دعوے کرتے پھرتے ہیں۔ یہ صرف اپنے اپنے مفاد کی جنگ ہے۔ کیوں میں غلط کہہ رہی ہوں۔” علیزہ اب بھی اسی طرح پر سکون تھی۔
”اپنے لئے انصاف طلب کرنا مفاد پرستی کیسے ہو گیا؟” صالحہ نے اس کی بات پر چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”صرف اپنے لئے انصاف طلب کرنا مفاد پرستی ہی ہے، اسے کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔”
”ٹھیک ہے پھر تم اسے مفاد پرستی کا نام دے لو۔ ہاں، میں چاہتی ہوں کہ عمر جہانگیر کو سزا ملے کیونکہ اس کو سزا ملنی چاہئے اور اگر میری اس خواہش کی وجہ اپنی فیملی کے ساتھ اس کی طرف سے کی جانے والی کوئی زیادتی ہے تو بھی میں حق پر ہوں۔” صالحہ نے دو ٹوک انداز میں کہا ”میں انسان ہوں، فرشتہ نہیں ہوں۔”