”اور اگر یہی بات عمر جہانگیر کہے یا پھر رضی محمود تو …؟” صالحہ چند لمحوں تک کچھ نہیں کہہ سکی۔
”اگر وہ بھی یہی کہیں کہ انہوں نے بھی اسی خود غرضی کا مظاہرہ کیا تھا ۔جس خود غرضی کا مظاہرہ ہم سب اپنی اپنی استطاعت میں کرتے رہے ہیں تو…؟”
”تم ایک غلط۔۔۔” علیزہ نے اس کی ناراضی سے کہی جانے والی بات کو کاٹ دیا۔
”نہیں صالحہ… تم میری بات سنو…میں عمر جہانگیر کو بچانا نہیں چاہتی ہوں مگر اس کے باوجود میں جانتی ہوں اسے کچھ بھی نہیں ہوگا مگر میں پروفیشنل اخلاقیات کی بات کر رہی ہوں جو ہمیں سکھائی جاتی ہیں۔ جرنلزم ایسا جرنلزم جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔ ہر ذاتی پسند یا ناپسند سے ماورا ہو۔”
علیزہ مایوسی کے عالم میں کہہ رہی تھی۔ ”ہم بیورو کریسی کو پروفیشنلزم سکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم ان پر تنقید کرتے ہیں۔ رائی کا پہاڑ بناتے ہیں یا یہ کہہ لو کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دیتے ہیں اور خود ہم کیا ہیں۔ ہم بھی اخلاقیات کے ہر معیار سے اسی طرح گرے ہوئے ہیں جس طرح وہ لوگ۔۔۔” وہ بول رہی تھی۔
”ہم پسند یا ناپسند کی بنیاد پر لوگوں کی عزتیں اچھالتے ہیں۔”
”علیزہ تم۔۔۔” صالحہ نے ناراضی کے عالم میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں صرف تمہاری بات نہیں کر رہی ہوں۔ میں ایک عام سی بات کر رہی ہوں۔ تم یہ سب کچھ کرنے والی واحد نہیں ہو۔ ہم تعلقات کی بنیاد پر خبریں شائع کر دیتے ہیں۔ ہم روپیہ اور پرمٹ لے کر لوگوں کی تعریفیں شائع کر دیتے ہیں۔ ہمیں خریدنا کیا مشکل کام ہے۔” وہ افسردگی سے مسکرائی۔
”میں سوچتی تھی کہ شاید یہ ایک پروفیشن ایسا ہے جہاں ایمانداری سے سب کچھ ہوتا ہے مگر اب میں جانتی ہوں کہ یہاں بھی ایمانداری کا تناسب اتنا ہی ہے جتنا سوسائٹی کے کسی دوسرے حصے میں۔۔۔” اس نے سر جھٹکا ”ہم اپنے آرٹیکلر اور ایڈیٹوریلز میں لوگوں کو اخلاقیات سکھاتے پھرتے ہیں۔ انہیں تہذیب، شائستگی جیسی باتوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ بہتان اور الزام تراشی پر ملامت کرتے ہیں۔ گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کا رونا روتے ہیں اور پھر ہم ایکٹرز سے لے کر سیاست دانوں اور اب عام آدمیوں کی بھی عزتیں اچھالتے پھرتے ہیں اور پھر ہم اسے نام دیتے ہیں انفارمیشن کا اور دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام کو سب پتا ہونا چاہیے ۔ ہم ہر خبر کو مرچ مسالہ لگا کر اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے فرنٹ پیج پر لگا دیتے ہیں۔ فلاں نے فلاں کے ساتھ گھر سے بھاگ کر کورٹ میں شادی کر لی۔ فرنٹ پیج نیوز اگلا پورا ہفتہ ہم اسے ہی کور کرتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ سات آدمی قتل ہو گئے ہم ساتوں کی کٹی ہوئی گردنیں فرنٹ پیج پر شائع کر دیں گے، ہم نے آج تک معاشرے میں کون سا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ہم جن ایکٹرسز کے لباس اور کردار پر تبصرے اور تنقید کرتے ہیں ان ہی ہیروئنوں کی ان ہی ملبوسات میں تصویریں شائع کرتے ہیں اور ہم دوسروں میں قول و فعل کا تضاد ڈھونڈتے ہیں۔” وہ ہنسی۔
”ہم جن سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالتے پھرتے ہیں انہیں کی حمایت ، ان ہی کی تعریفیں شائع کر تے ہیں۔ فخر سے لکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں چائے پر بلایا، فلاں ساتھ دورے پر لے گیا۔ فلاں نے اپنے بیٹے کی شادی پر بلایا۔ ہم ان کے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتے ہیں اور پھر ان تصویروں کو فریم کروا کر اپنی دیواروں پر بھی لٹکاتے ہیں۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکی ۔ ”ہم بیورو کریسی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ان کے ہر کام پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے تمام غلط کاموں کے لیے ان کے پاس بھی جاتے ہیں۔ اگر عمر جہانگیر نے تمہارے کزن کے ساتھ یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا تو کیا تمہیں کبھی یاد آتا کہ وہ کس شہر میں کیا کارنامے کر رہا ہے، کبھی نہیں ہمارے لیے پریشانی کھڑی ہو تو ہمیں ان پر اعتراض ہوتا ہے۔ ہمارے سارے کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہو جائیں تو ہم ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ہم ریاست کا چوتھا ستون۔۔۔”
وہ ایک بار پھر ہنسی…اس بار صالحہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات اب پہلے سے زیادہ بگڑے ہوئے تھے۔
”تمہاری اس ساری گفتگو کے باوجود میں عمر جہانگیر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کروں گی۔” اس نے علیزہ کو دوٹوک انداز میں بتایا۔
”ضرور کرو… میں تمہیں نہیں روکوں گی۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا، چند لمحے تک صالحہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
علیزہ کے چہرے پر پہلی بار پریشانی کے آثار نظر آئے۔
٭٭٭