اگلے دن صبح ناشتہ کرتے ہوئے اس نے کچھ بے دلی سے اخبار کھولا۔ اسے توقع تھی کہ اخبار میں صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات ہوں گی۔ عمر کے لیے ایک اور نئی مصیبت، وہ جانتی تھی عمر اس گفتگو کی تردید نہیں کر سکے گا، کیونکہ صالحہ کے پاس آفس کے ایکسچینج میں موجود آپریٹر کی ریکارڈ شدہ گفتگو ہو گی اور اس بات کا اندازہ عمر کو بھی ہونا چاہیے تھا، اسے ویسے بھی عمر کی حماقت پر حیرت ہو رہی تھی کہ اس نے اس طرح فون کرکے صالحہ کو دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ جس قدر محتاط فطرت رکھتا تھا اس سے اس قسم کی غلطی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر وہ غلطی کر چکا تھا اور علیزہ جانتی تھی یہ غلطی عمر کو خاصی مہنگی پڑے گی۔ خاص طور پر اس صورت میں اگر صالحہ نے پریس کانفرنس میں وہ گفتگو صحافیوں کو سنانے کا فیصلہ کر لیا تو۔
مگر اخبار دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی۔ صالحہ کی کوئی تحریر اس میں شامل نہیں تھی نہ صرف یہ کہ اس کی تحریر نہیں تھی بلکہ اخبار میں کہیں بھی صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالے سے کوئی نیوز آئٹم بھی نہیں تھا۔
علیزہ نے اخبار کی ایک ایک خبر دیکھ لی…مگر وہاں عمر کے حوالے سے کچھ بھی موجود نہیں تھا کچھ دیر بے یقینی سے وہ اخبار کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے رکھ دیا۔ اب اسے آفس جانے کی بے چینی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ صالحہ نے عمر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو شائع کیوں نہیں کی۔ کیا اس پر علیزہ کی باتوں کا اثر ہو گیا تھا یا پھر…یا پھر کوئی اور وجہ تھی۔
اس دن آفس جا کر اسے پتا چلا کہ صالحہ آفس نہیں آئی۔
”صالحہ آفس کیوں نہیں آئی؟” علیزہ نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک سب ایڈیٹر سے پوچھا۔
”وہ چند دن کی چھٹی پر چلی گئی ہے۔” نغمانہ نے اسے بتایا۔
علیزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔” چند دن کی چھٹی پر…؟” کل تک تو اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اب اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا ، مجھے تو خود آج صبح ہی پتا چلا ہے کہ وہ چھٹی پر چلی گئی ہے۔ وہ بھی تب جب مجھے اس کا کام سونپا گیا ہے۔” نغمانہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”تم فون کرکے پوچھ لو اس سے کہ اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی۔”
علیزہ کو ہچکچاہٹ ہوئی اگر اس کے اور صالحہ کے درمیان کل والی گفتگو نہ ہوئی ہوتی تو وہ یقیناً اسے کال کرنے میں تامل نہ کرتی مگر اب اس کے لیے صالحہ کو فون کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
”تم کیا سوچنے لگیں؟” نغمانہ نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں کچھ نہیں…بس ایسے ہی۔” علیزہ نے کہا کچھ دیر بعد ایک خیال آنے پر اس نے نغمانہ سے پوچھا۔
”کیا صالحہ نے کوئی آرٹیکل لکھا ہے۔ کوئی نیا آرٹیکل؟” نغمانہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تم کب کی بات کر رہی ہو؟”
”کل کی…یا آج۔۔۔”
”نہیں، اس نے کوئی نیا آرٹیکل نہیں دیا۔ ہو سکتا ہے گھر سے کچھ بھجوا دے یا پھر چھٹیوں کے بعد کچھ لکھ لائے مگر فی الحال اس کا کوئی آرٹیکل میرے پاس نہیں ہے۔”
”اچھا۔۔۔”علیزہ کچھ اور الجھی۔
”کیا اس نے تم سے کسی آرٹیکل کی بات کی تھی؟” نغمانہ نے اچانک اس سے پوچھا۔