”نہیں ایسے کسی خاص آرٹیکل کی بات تو نہیں کی۔ میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی کہ شاید چھٹی پر جاتے ہوئے وہ کوئی نئی چیز دے کر گئی ہو۔”
کچھ دیر نغمانہ کے پاس رہنے کے بعد وہ واپس اپنے کیبن میں آگئی۔ اپنے کیبن میں آنے کے بعد اس نے فون اٹھا کر آفس کے آپریٹر سے بات کی۔ ”ذکا…صالحہ نے کل آپ سے کسی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ لی ہے؟” اسے لگا دوسری طرف ذکا جواب دیتے ہوئے کچھ تامل کر رہا ہے۔
”آپ کس کی گفتگو کی بات کر رہی ہیں؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ذکا نے اس سے پوچھا۔
”کل میرے آفس میں آپ نے صالحہ کی عمر جہانگیر کے ساتھ بات کروائی تھی۔ میں اس کی ریکارڈنگ کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”نہیں، وہ میں نے صالحہ کو نہیں دی… آپ جانتی ہیں، چیف ایڈیٹر کو بتائے بغیر اور ان سے اجازت لیے بغیر ایسی کوئی ریکارڈنگ کسی کو نہیں دی جاتی۔” کل صالحہ نے مجھ سے وہ ریکارڈنگ مانگی تھی مگر جب میں نے تیمور صاحب سے بات کی تو انہوں نے وہ ریکارڈنگ دینے سے منع کر دیا۔” ذکا نے چیف ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ پرسکون ہو گئی۔
”تو وہ ریکارڈنگ آپ کے پاس ہے؟” اس نے ذکا سے پوچھا۔
”نہیں۔ وہ میرے پاس بھی نہیں ہے۔”
”آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر کس کے پاس ہے؟” علیزہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”وہ تیمور صاحب نے اپنے پاس منگوا لی تھی۔ شاید سننے کے لیے؟” ذکا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”پھر بعد میں انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ میں اس کو ضائع کر دوں۔”
”آپ نے ضائع کر دی؟”
”جی۔۔۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں بس یہی جاننا چاہتی تھی۔” اس نے ریسیور رکھ دیا اور کچھ دیر پر سوچ انداز میں فون کو دیکھتی رہی۔
یکدم تیمور صاحب کے دل میں عمر جہانگیر کے لیے اس قدر ہمدردی کہاں سے اُمڈ پڑی تھی کہ انہوں نے اس ٹیپ کو ضائع کر دیا جس میں موجود مواد کے شائع ہونے سے عمر کی پوزیشن اور خراب ہوتی وہ الجھ رہی تھی۔
”جب کہ ابھی چند دن سے تو وہ صالحہ کو اس کے آرٹیکلز پر داد دے رہے تھے اور پھر زین العابدین ، کیا اس نے صالحہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا یا صالحہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا؟” وہ اس معمے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔
اب کم از کم اسے صالحہ پرویز کے چھٹی پر جانے کی وجہ سمجھ میں آگئی تھی۔ وہ یقیناً احتجاجاً چھٹی پر گئی تھی جب اسے تیمور صاحب سے اس گفتگو کو شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی ہو گی تو…اس نے یقیناً یہی بہتر سمجھا ہو گا کہ وہ اپنی ناراضی کا اظہار کرے مگر کیا عمر نے چیف ایڈیٹر سے بھی بات کی تھی؟ اس کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔
”یقیناً کی ہو گی ورنہ انہوں نے صالحہ کو وہ گفتگو شائع کرنے سے منع کرنے اور اس ٹیپ کو ضائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اب وہ کل کیا کریں گے ۔ کیا اخبار میں معذرت شائع کریں گے۔ صالحہ پرویز کی طرف سے اور اخبار کی طرف سے یا پھر۔۔۔”
وہ اب عمر کی حکمت عملی کے بارے میں اندازے لگانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
اگلے دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جیسا وہ توقع کر رہی تھی۔ اس کے اخبار میں عمر کے بارے میں اس دن بھی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر طرف یکدم ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ آفس میں بھی کچھ نئی خبریں تھیں جن کو ڈسکس کیا جا رہا تھا اور علیزہ کے تجسس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ تجسس ہی تھا جو اسے زہرہ جبار کے پاس لے گیا تھا وہ ان کے انڈر کام کرتی تھی۔
”میں آپ سے پرسوں کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔” اس نے کچھ رسمی سی باتوں کے بعد ان سے اپنے مطلوبہ موضوع پر گفتگو شروع کر دی۔