Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”پرسوں کے بارے میں؟”
”ہاں صالحہ کے حوالے سے۔” علیزہ نے کہا۔
”پرسوں صالحہ سے میری بات ہو رہی تھی۔ وہ ایک اور آرٹیکل لکھنا چاہ رہی تھی عمر جہانگیر کے بارے میں” اس نے بات شروع کی۔ ”دراصل اس دن عمر جہانگیر نے فون کیا تھا یہاں صالحہ کو…میرے آفس میں ہی بات ہوئی تھی دونوں کی بلکہ کچھ جھگڑا بھی ہوا تھا اور فون پر بات ختم کرنے کے بعد صالحہ نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ عمر کے بارے میں ایک اور آرٹیکل لکھے گی بلکہ اس کی تمام گفتگو شائع کر دے گی مگر پھر وہ چھٹی پر چلی گئی اور میرا کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔” علیزہ نے جھوٹ بولا۔
”پھر کل مجھے پتا چلا کہ تیمور صاحب نے صالحہ کو وہ آرٹیکل لکھنے سے منع کر دیا ہے اور وہ گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ضائع کروا دی۔” اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں…اوپر سے کچھ پریشر تھا۔” زہرہ جبار نے اس کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیسا پریشر…؟” علیزہ نے پوچھا۔



”تمہیں پتا ہونا چاہیے علیزہ کیسا پریشر ہو سکتا ہے۔ تم آخر اس خاندان کی ایک فرد ہو۔” وہ عجیب سے انداز میں مسکرا کر بولیں۔
علیزہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ بات جانتی ہو گی۔ ”یقیناً صالحہ نے یہ بات۔۔۔” اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
”میں تو صالحہ سے یہ جان کر حیران رہ گئی کہ تم عمر جہانگیر کی کزن ہو، میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا، اور مجھے حیرت اس بات پر بھی تھی کہ تم اور صالحہ اتنی اچھی فرینڈز ہو اور صالحہ پھر بھی تمہاری فیملی کے بارے میں لکھ رہی ہے اور تم نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔” زہرہ جبار اب کہہ رہی تھیں۔
”یہ تو مجھے صالحہ نے بتایا کہ وہ خود بھی چند دن پہلے تک یہ بات نہیں جانتی تھی۔ تم نے اس سے بھی کبھی اس بات کا ذکر ہی نہیں کیا۔”
”یہ ضروری تو نہیں تھا کہ میں ایسا کرتی۔”
”ہاں ٹھیک ہے ضروری تو نہیں تھا مگر پھر بھی…چلو کوئی بات نہیں، اب تو ویسے بھی سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کے جواب میں قدرے لاپروائی سے کہا۔
”میں یہی جاننا چاہ رہی ہوں کہ سب کچھ کیسے ختم ہو گیا ہے۔ کل تک تو۔۔۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ تو میں نہیں جانتی۔ تیمور صاحب نے اتنی تفصیل نہیں بتائی مگر پرسوں کافی کالز آئی تھیں ان کے پاس، کافی اوپر سے اور وہ قدرے پریشان تھے۔ پھر انہوں نے صالحہ کو بلوا کر اس سے بات کی۔”
”مگر وہ کیوں پریشان تھے۔ خود گورنمنٹ نے بھی تو انکوائری کا اعلان کیا تھا۔ عمر کے خلاف۔”
”ہاں گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا مگر اعلان کرنے میں اور انکوائری کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ صالحہ تو پرسوں بہت غصہ میں تھی۔ غصہ میں ہی چھٹی لے کر گئی ہے۔” انہوں نے اسے ایک اور اطلاع دی۔ ”تمہارے اور صالحہ کے درمیان تو آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی؟”
”کیسی بات؟”
”کوئی جھگڑا…؟”
”نہیں، مجھ سے اس کا کوئی جھگڑا کیوں ہوگا۔ ہم ابھی بھی دوست ہیں۔” اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
”مجھے صرف تجسس ہو رہا تھا۔ اس لیے میں نے یہ سب کچھ آپ سے پوچھا۔” علیزہ نے وضاحت کی۔ ”مگر مجھے حیرانی ہو رہی ہے۔”
”کس بات پر؟”
”تیمور صاحب اتنی آسانی سے تو پریشرائز نہیں ہوتے ، بلکہ ہمارے اخبار کی کریڈ یبیلٹی اسی بات پر بیس کرتی ہے کہ ہم ہر قسم کے پریشر کو فیس کرنا جانتے ہیں اور کبھی بھی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے پھر اب اتنے چھوٹے سے ایشو پر۔۔۔”زہرہ جبار نے کندھے اچکائے۔



”ہاں مجھے بھی حیرت ہے مگر…ظاہر ہے…پیچھے کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی۔ کوئی ایسی بات ہو گی کہ تیمور صاحب نے اس سارے معاملے کو ختم کرنا بہتر سمجھا۔۔۔”
”اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ زین العابدین بھی اسی اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے۔ تیمور صاحب اسے کیسے روکیں گے؟ وہ تو کمپرومائز نہیں کرتا۔”
”تم سے کس نے کہا کہ زین العابدین اس اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے؟” زہرہ جبار نے کچھ چونک کر کہا۔
”صالحہ سے پتا چلا ہے مجھے۔” علیزہ نے صالحہ کا حوالہ دیا۔
”میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے اور زین العابدین۔۔۔” زہرہ جبار کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ ”وہ کبھی بھی پہلے سے اپنی اسائنمنٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا، پھر صالحہ…جو بھی ہو، یہ زین العابدین اور تیمور صاحب کا مسئلہ ہے۔ وہ خود ہی اسے ورک آؤٹ کر لیں گے۔” انہوں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا علیزہ وہاں سے باہر آگئی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!