اگلا دن بہت دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ وہ دوپہر کے وقت آفس میں کام کر رہی تھی جب نغمانہ یکدم اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”مائی گاڈ علیزہ ! تمہیں پتا ہے، صالحہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟” اس نے کیبن میں داخل ہوتے ہی کہا۔
”نہیں…کیا ہوا ہے؟” علیزہ اس کے سوال سے زیادہ اس کے تاثرات دیکھ کر خوفزدہ ہوئی۔
”اس کی گاڑی پر کسی نے فائرنگ کی ہے۔ آج صبح جب وہ آفس آرہی تھی تو۔۔۔”
”مائی گاڈ…تمہیں کس نے بتایا؟ وہ ٹھیک تو ہے؟” علیزہ یکدم پریشان ہو گئی۔
”صالحہ نے خود فون کیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے آفس میں…اسی نے بتایا ہے۔”
”اس کا مطلب ہے، صالحہ ٹھیک ہے۔” علیزہ نے سکون کا سانس لیا۔
”ہاں…وہ بہت لکی تھی جو بچ گئی۔” نغمانہ نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا ”ان لوگوں نے اس وقت اس کی گاڑی پر فائرنگ کی جب وہ ابھی اپنے گھر سے نکلی تھی۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اس کے گھر کا گارڈ بھی باہر نکل آیا اور اس نے بھی فائرنگ کی جس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ گئے مگر صالحہ تو بہت زیادہ اپ سیٹ ہے۔ اس نے تیمور صاحب سے بھی بات کی ہے اور کل وہ پریس کانفرنس کر رہی ہے۔”
”وہ جانتی ہے کہ فائرنگ کس نے کی ہے؟”
”سب جانتے ہیں، وہ جن کے خلاف آج کل لکھ رہی ہے، ظاہر ہے ان لوگوں نے ہی۔” نغمانہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”تم عمر جہانگیر کا نام لینا چاہتی ہو۔” علیزہ نے اس کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں جانتی ہوں، تمہیں یہ بات بری لگے گی مگر عمر جہانگیر کے علاوہ یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کم از کم آفس میں سب یہی کہہ رہے ہیں اور خود صالحہ کا بھی یہی کہنا ہے عمر جہانگیر نے اس کی چھٹی کے دوران اسے گھر بھی فون کرکے دھمکایا تھا۔”
علیزہ کچھ بے دم ہو گئی۔ اسے یکدم ڈپریشن ہونے لگا تھا۔ آخر عمر جہانگیر کیوں اس طرح کی حرکات میں انوالو ہوتا ہے۔ نغمانہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔ مگر علیزہ کو اب کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
عمر کے لیے ایسی کوئی حرکت کرنا ناممکن تھا مگر وہ پھر بھی یہ توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ کسی عورت پر بھی ایسا حملہ کروا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب وہ اخبار پر اتنا پریشر ڈال چکا تھا کہ اب اس کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہو رہا تھا۔ اسے عمر سے گھن آئی…اسے اپنے خاندان سے گھن آئی۔
٭٭٭