شام کو وہ صالحہ سے ملنے اس کے گھر گئی، ملازم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، کچھ دیر کے انتظار کے بعد وہ واپس آیا۔
”بی بی سو رہی ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔ علیزہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑا پھولوں کا بوکے اس نے ملازم کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ میری طرف سے اسے دے دیں اور اسے بتا دیں کہ علیزہ سکندر اس سے ملنے آئی تھی۔ میں اسے کال کروں گی۔”
”ٹھیک ہے، میں ان کو آپ کا پیغام دے دوں گا۔” ملازم نے سر ہلاتے ہوئے بوکے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ علیزہ نے دو گھنٹے کے بعد گھر سے اسے فون کیا مگر ملازم نے فون پر اس کا نام پوچھنے کے بعد اس سے کہا ”بی بی ابھی بھی سو رہی ہیں۔”
”آپ نے انہیں میرا پیغام دیا؟”
”جی…وہ کھانا کھانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ کوئی انہیں ڈسٹرب نہ کرے۔” ملازم نے اسے صالحہ کا پیغام دیا۔
علیزہ نے فون بند کرکے صالحہ کے موبائل پر اسے کال کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی۔ وہ صاف طور پر اسے نظر انداز کر رہی تھی۔ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
علیزہ اس کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً اس وقت عمر جہانگیر کے خاندان کے ہر فرد کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہو گی اور چند دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے اس نے یہی اخذ کیا ہو گا کہ علیزہ بھی عمر جہانگیر اور اس کے ہر اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
اگلے دن کے اخبارات نے اس خبر کو فرنٹ پیج نیوز بنایا تھا۔ عمر جہانگیر پر اور کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اس کے حوالے سے اگلی پچھلی بہت سی خبروں کو اخبار میں لگایا گیا تھا اور اس بار صرف ان کا اخبار ہی یہ سب شائع نہیں کر رہا تھا بلکہ ہر اخبار اس کے بارے میں اسی طرح کی خبریں لگا رہا تھا۔
تیسرے دن کے اخبارات عمر کے بارے میں کچھ اور خبریں لے کر آئے تھے۔ صالحہ پرویز کی پریس کانفرنس کو نمایاں کوریج دی گئی تھی جب کہ عمر جہانگیر کی تردید کو ایک سنگل کالمی خبر بنا کر پچھلے صفحے کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا۔ اے پی این ایس کی طرف سے اس حملے کی مذمت اور عمر جہانگیر کا برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
٭٭٭