اس کی پریشانی اگر نانو سے چھپی نہیں رہی تھی تو آفس میں بھی وہ دوسروں سے اپنی ذہنی اور دلی کیفیات نہیں چھپا سکی تھی۔ سب سے پہلے صالحہ نے اس سے اس کا حال احوال پوچھا تھا۔
”تمہیں کوئی پرابلم تو نہیں ہے؟” اس نے سلام دعا کرنے کے بعد پہلا سوال یہی کیا۔
”نہیں کوئی پرابلم نہیں ہے۔” علیزہ نے اپنی میز پر پڑے آرٹیکلز پر اپنی نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”پھر اتنی سنجیدہ کیوں نظر آرہی ہو؟” صالحہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”کام کرنے کے دوران میں ہمیشہ سنجیدہ ہی نظر آتی ہوں۔” علیزہ نے اسی طرح آرٹیکلز پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”میں اس بات پر یقین نہیں کر سکتی۔ صبح تمہیں آفس میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تمہارا موڈ خراب ہے مگر تم کہہ رہی ہو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔”
”میری طبیعت کچھ خراب ہے، باقی تو سب کچھ واقعی ہی ٹھیک ہے۔” علیزہ نے اس بار سر اٹھا کر مسکرانے کی کوشش کی۔
”مجھے اب بھی یقین نہیں آیا۔” صالحہ نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے کہا۔ وہ ایک ٹھنڈا سانس لے کر ایک بار پھر ان آرٹیکلز پر جھک گئی۔
”میں مدد کر سکتی ہوں کچھ؟” صالحہ نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”نہیں۔۔۔” علیزہ صفحات الٹتے ہوئے بولی۔
”پھر صالحہ کو اسی طرح دیکھ کر نرم آواز میں بولی۔
”کیا تم تھوڑی دیر کے لیے مجھے اکیلا چھوڑ سکتی ہو؟”
”ہاں کیوں نہیں۔۔۔” صالحہ قدرے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے اٹھ گئی۔
”Hope you won’t mind” علیزہ نے کہا۔
”It’s alright”صالحہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
علیزہ نے اس کے باہر جاتے ہی اپنے سامنے پڑے ہوئے آرٹیکلز ایک طرف رکھ دیئے۔ ان آرٹیکلز کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت ان کا سر پیر سمجھنے سے قاصر تھی۔ جنید اس وقت اسے آفس میں فون کیا کرتا تھا۔ آج اس نے فون نہیں کیا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود اس کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔ پچھلی رات اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو ایک بار پھر اسے یاد آرہی تھی اور وہ ایک بار پھر خفگی کی ایک لہر سی اپنے اندر اٹھتی محسوس کر رہی تھی۔ ” آخر اسے عمر کی خاطر مجھ سے لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک ایسے شخص کی حمایت کرنے کی جسے وہ براہ راست جانتا تک نہیں۔۔۔”اسے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
”کیا اسے مجھ سے زیادہ میری فیملی کی فکر ہو سکتی ہے؟” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پین ٹیبل پر رکھ دیا۔” اور آخر اسے مجھ سے یہ سب باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔” وہ جھنجھلا رہی تھی۔
”پھر اتنی چھوٹی سی بات پر وہ اس طرح ناراض ہو گیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔” وہ بہت مضطرب تھی۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں اسے فون کر لوں؟” اسے یکدم ایک خیال آیا۔
”مگر میں اسے فون کیوں کروں…ناراض وہ مجھ سے ہے، میں تو نہیں۔”
”غلط بات اس نے کی تھی میں نے تو نہیں۔۔۔” اس نے ایک بار پھر آرٹیکلز کو اپنے سامنے کھینچ لیا۔
”مگر اس سے بات کرکے میں کم از کم اس ٹینشن سے تو نکل سکتی ہوں۔” اسے ایک بار پھر خیال آیا۔
”لیکن اگر فون کرنے پر اس نے ایک بار پھر مجھ سے وہی مطالبہ کیا تو…؟” اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا۔
”اسے خود مجھے فون کرنا چاہیے، میں اسے فون کیوں کروں…اسے احساس ہونا چاہیے اپنی غلطی کا۔۔۔” علیزہ نے ایک بار پھر اپنا ارادہ بدل دیا۔
صالحہ اس دن بہت خوش تھی۔ اس کے آرٹیکل پر ملنے والا رسپانس بہت اچھا تھا، شاید وہ علیزہ سے اس رسپانس کو ہی ڈسکس کرنا چاہتی تھی مگر علیزہ کے خراب موڈ نے اسے قدرے حیران کر دیا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ علیزہ کا موڈ اس طرح خراب ہو ۔ وہ عام طور پر خوشگوار موڈ میں رہا کرتی تھی۔
تین چار بجے کے قریب صالحہ ایک بار پھر علیزہ کے کمرے میں آگئی۔
”تمہارا موڈ کچھ ٹھیک ہوا؟” اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
علیزہ اس بار اسے دیکھ کر مسکرائی ”ہاں ٹھیک ہو گیا۔”
”خدا کا شکر ہے ورنہ میں سوچ رہی تھی کہ شاید تم آج سارا دن ہی اسی طرح منہ لٹکائے پھرو گی۔” صالحہ نے ایک گہری سانس لے کر کرسی کھینچ لی۔
”تمہارا کام ختم ہو گیا ہے؟”
”تقریباً ختم ہو گیا ہے۔” علیزہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
”چلو اچھا ہے، کچھ دیر گپ شپ تو کر سکتی ہوں تمہارے ساتھ۔” صالحہ اطمینان سے بولی۔
”مجھے لگتا ہے، آج تمہارے پاس کرنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہے؟” علیزہ مسکرائی۔