”آج شام کو لاہور کے سارے صحافی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی واک کر رہے ہیں۔ عمر جہانگیر کی معطلی اور اس کے خلاف اس قاتلانہ حملہ کی انکوائری کے لیے۔ ہمارے اخبار کے سارے لوگ بھی جار ہے ہیں۔ علیزہ تم چلو گی؟”
نغمانہ نے تیسرے دن اسے صبح آفس آتے ہی بتایا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔
”کوئی زبردستی نہیں ہے، اگر تم اس واک کو جوائن نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔” نغمانہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں۔۔۔” اس نے جیسے علیزہ سے ہمدردی کی۔
”میں نے ابھی کچھ طے نہیں کیا، ہو سکتا ہے میں شام کو وہاں آجاؤں۔” علیزہ نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
وہ شام کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس احتجاجی واک میں شرکت کرنے کے لیے چلی گئی۔ اگلے دن آفس میں کولیگز کی چبھتی اور سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا۔
اسے دیکھ کر وہاں سب کو حیرت ہوئی تھی شاید کوئی بھی وہاں اس کی اس طرح آمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود صالحہ پرویز بھی خاصی حیران نظر آئی۔ فائرنگ والے واقعہ کے بعد اس دن پہلی بار ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا علیزہ اس کی طرف بڑھ آئی۔
”ہیلو صالحہ…تم کیسی ہو؟” اس نے صالحہ سے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”میں تم سے کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں مگر…شاید تم بہت مصروف تھیں۔” اس نے صالحہ سے کہا۔
”نہیں، میں مصروف نہیں اپ سیٹ تھی۔”
”میں سمجھ سکتی ہوں…اور میں اسی حوالے سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مجھے بہت افسوس ہوا ہے اس واقعہ پر۔”
”شکریہ…میں جانتی ہوں، اور اس بوکے کے لیے بھی شکریہ جو تم نے مجھے بھجوایا۔” صالحہ نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” علیزہ نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔
”ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم آج یہاں آؤ گی۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک صالحہ نے اس سے کہا۔
”لیکن میں آگئی۔ کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ میں اپنی فیملی کے ہر غلط قدم کی حمایت نہیں کرتی ہوں۔”
”ہاں، کم ازکم اب میں یہ ضرور جان گئی ہوں۔” صالحہ نے ایک گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ پھر وہ دونوں دوسری باتوں میں مصروف ہو گئیں۔
واک میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور ان سب نے پوسٹرز پکڑے ہوئے تھے جن پر عمر جہانگیر کے خلاف بہت سے نعرے درج تھے۔ نغمانہ نے ایک پوسٹر علیزہ کو بھی پکڑا دیا۔
علیزہ نے زندگی میں پہلی بار پوسٹر پکڑ کر سڑک پر اس طرح کسی واک میں حصہ لیا تھا اور وہ خاصی خفت کا شکار ہو رہی تھی مگر وہاں موجود باقی سب صحافیوں کے لیے یہ سب عام سی بات تھی بہت سی واکس میں سے ایک بلکہ احتجاجی واک سے زیادہ ان کے لیے یہ گپ شپ کرنے کا ایک موقع تھا۔ پریس کلب سے گورنر ہاؤس جا کر کچھ سینئر صحافیوں نے گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی اور پھر گورنر کے پرسنل سیکرٹری سے بھی ان صحافیوں کی ملاقات کروائی گئی۔
ان صحافیوں کی واپسی پر ان کے چہروں پر خاصا اطمینان تھا۔
”گورنر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ زیر اعلیٰ سے بات کرکے کل عمر جہانگیر کو معطل کر دیں گے۔”
صحافیوں میں سے ایک نے بلند آواز میں وہاں کھڑے دوسرے صحافی کو بتایا تھا۔ کچھ دیر کی مزید گپ شپ کے بعد تمام صحافی وہاں سے جانے لگے۔ علیزہ بھی وہاں سے واپس گھر آگئی۔
٭٭٭