رات آٹھ بجے جب وہ گھر واپس آئی تو جنید اس کا منتظر تھا، وہ اور نانو دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
”میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا۔ تم کہاں تھیں۔ تم نے موبائل کیوں آف کیا ہوا تھا؟” جنید نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”بس ایسے ہی آف کر دیا تھا۔ کچھ فرینڈز کے ساتھ فورٹریس چلی گئی تھی میں۔” علیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”مگر کم از کم موبائل کو تو آف نہ کیا کرو اور خاص طور پر شام کے وقت۔ وہ بھی اتنے لمبے عرصے کے لیے۔ میں تمہیں ٹریس ہی نہیں کر پا رہا تھا۔”
”مگر آپ کے ساتھ تو آج میرا کوئی پروگرام طے نہیں ہوا تھا ورنہ میں جاتی ہی نا۔۔۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں، پروگرام تو کوئی نہیں تھا۔ میں ویسے ہی آگیا…یہاں کالونی میں کسی کام سے آیا تھا سوچا کہ تم سے اور نانو سے ملتا چلوں۔” جنید نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔
”اب تم کپڑے چینج کر لو تو میں کھانا لگواؤں۔” نانو نے اسے اطمینان سے بیٹھے دیکھ کر کہا۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
٭٭٭
اگلے دن صبح ناشتہ کی میز پر آتے ہی اسے نانو کا موڈ آف ہونے کا احسا س ہوا اور اخبار ہاتھ میں لیتے ہی اسے اس کی وجہ پتا چل گئی تھی۔ پہلے ہی صفحے میں چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ اس کی اپنی تصویر موجود تھی اور نیچے اس تصویر کے ساتھ صحافیوں کی اس احتجاجی ریلی کم واک کی تفصیلات چھپی ہوئی تھیں۔
علیزہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی کوئی تصویر بنائی جائے گی اور پھر اسے اخبار میں اتنی نمایاں جگہ لگا دیا جائے گا۔ اس نے کن اکھیوں سے نانو کو دیکھا۔ وہ بالکل خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ان سے کیا بات کرے۔ پھر ناشتہ شروع کرتے ہوئے اس نے اس وقت ان سے کوئی بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہتر تھا کہ وہ آفس سے واپس آکر ہی ان سے بات کرتی۔ کیونکہ تب تک ان کا غصہ کسی حد تک کم ہو گیا ہوتا۔ عمر کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے شائع ہونے والی خبروں سے وہ پہلے ہی بہت پریشان تھیں اور اب اسے بھی اس مہم کا حصہ دیکھ کر یقیناً انہیں شاک پہنچا تھا۔
ناشتہ خاموشی سے کرنے کے بعد وہ آفس چلی آئی مگر آفس آنے کے بعد وہ لاشعوری طور پر جنید کی کال کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک وہ بھی اخبار دیکھ چکا ہوگا اور دیکھنا چاہتی تھی کہ اس تصویر پر اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ خاص طور پر یہ جان کر کہ اس نے جنید سے اپنی کل شام کی مصروفیت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔
وہ اکثر اسے اسی وقت فون کرتا تھا مگر اس روز اس کا فون نہیں آیا۔ گیارہ بجے کے قریب علیزہ نے کچھ ہمت کرتے ہوئے اس کے موبائل پر اسے فون کیا۔ دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئی۔
”ہیلو جنید! میں علیزہ ہوں۔”
”میں جانتا ہوں۔” جنید نے اس کی بات کے جواب میں بڑے سپاٹ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے فون کا انتظار کر رہی تھی۔” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس کے علاوہ اس سے کیا کہے۔
”یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔” علیزہ اس کے لہجے میں ناراضی تلاش کرنے لگی۔ ”میرا تو خیال تھا کہ آپ خاصی Self reliant (خودمختار )ہیں۔ دوسروں کے انتظار جیسی حماقت نہیں کر سکتیں۔ بہرحال آپ کی بہت مہربانی کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔”
وہ پہلی بار اس بات سے آگاہ ہوئی تھی کہ جنید طنزیہ گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ ”میں مصروف تھا اس لیے فون نہیں کیا۔”
کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی پھر علیزہ نے ہی ہمت کرتے ہوئے پوچھا ”آپ نے اخبار دیکھا؟”
”روز دیکھتا ہوں؟” اس کا لہجہ اب بھی بے تاثر تھا۔
”آج کا اخبار دیکھا؟”
”شاید تم یہ پوچھنا چاہ رہی ہو کہ میں نے تمہاری تصویر دیکھی؟” اس نے اتنے ڈائریکٹ انداز میں کہا کہ وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہاں، دیکھی ہے میں نے…بہت اچھی آئی ہے۔” شرمندگی سے علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”یقیناً فورٹریس میں بنوائی ہو گی تم نے…اپنی فرینڈز کے ساتھ۔” وہ اب بھی کچھ نہیں بول سکی۔
”صحیح کہہ رہا ہوں نا؟” وہ اب بڑے نارمل سے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”جنید! میں آپ کو بتا دینا چاہتی۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیا میں نے کیا ہے؟”
”آپ نے نہیں کیا مگر۔۔۔”جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”اور میں نے کوئی وضاحت بھی نہیں مانگی…کیا مانگی ہے؟”
”نہیں مگر میں پھر بھی معذرت کرنا چاہ رہی ہوں۔”
”کس چیز کے لیے؟”
”غلط بیانی کے لیے۔”
”معذرت چاہتا ہوں مگر اس کو جھوٹ کہتے ہیں جسے آپ غلط بیانی کہہ رہی ہیں۔” وہ کچھ دیر خاموش رہی۔
”ٹھیک ہے، آپ اسے جھوٹ کہہ لیں۔ میں اپنے جھوٹ کے لیے آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں۔”
”فائدہ؟” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کی بات کا کیا جواب دے۔