Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا، مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کچھ دیر کے بعد اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اس چیز پر افسوس ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا مگر تمہیں اس چیز پر افسوس نہیں ہے کہ تم ایک احمقانہ کام کے لیے وہاں گئی تھیں۔” جنید نے تلخی سے کہا۔
”جنید! میں آپ کو یہ سب کچھ نہیں سمجھا سکتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”تم مجھے یہ سب کچھ صرف اس لیے نہیں سمجھا سکتیں کیونکہ یہ بہت Illogical(غیر منطقی) ہے ایسا کچھ جس کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔”
”میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ صالحہ میری کولیگ اور دوست ہے۔”
”عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے اسی طرح کہا۔



”مگر صالحہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔”
”عمر جہانگیر کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے۔” جنید نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”عمر جہانگیر اس سب کا خود ذمہ دارہے۔”
”صالحہ بھی اس کی خود ذمہ دار ہے۔”
”ہم غیر متعلق لوگوں کی وجہ سے آپس میں بحث کیوں کر رہے ہیں؟” علیزہ نے کچھ چڑتے ہوئے کہا۔
”جب غیر متعلق لوگوں کے لیے سڑک پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہوگی تو پھر بحث تو ہو گی۔ اگر آج کوئی عمر جہانگیر کے لیے ایسی ہی کوئی واک کنڈکٹ کرے تو تم جاؤ گی وہاں؟” علیزہ خاموش رہی۔ جنید تلخی سے ہنسا۔
”نہیں جاؤ گی…میں نے تم سے پہلے کبھی کہا تھا…رشتے دیانت داری مانگتے ہیں اور تم یہ حقیقت تسلیم کرو یا نہ کرو مگر عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”میں اپنے گھر والوں کو اس تصویر کی کیا Justification(وضاحت) دے سکتا ہوں کہ میری منگیتر اپنے ہی خاندان والوں کے خلاف پوسٹر پکڑ کر سڑک پر کھڑی ہے؟” علیزہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میں نے آپ کو بتایا ہے، میں بہت خوشی سے وہاں نہیں گئی تھی۔ مجھے مجبوراً وہاں جانا پڑا۔”
”نہیں۔ میں یہ وضاحت قبول نہیں کر سکتا…کوئی مجبوراً کچھ بھی نہیں کرتا جب تک کہ اپنی مرضی کسی نہ کسی حد تک اس میں شامل نہ ہو۔” جنید نے اسی طرح ترشی سے کہا۔



”میں آپ سے ایکسکیوز کر تو رہی ہوں۔”
”مجھے تمہاری ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے علیزہ! جس چیز پر تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی اس کے لیے ایکسکیوز مت کرو۔” جنید نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تو پھر میں اور کیا کروں، آپ کو بتا تو چکی ہوں کہ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں اس موضوع پر تم سے پھر کبھی بات کروں گا۔” اس کے لہجے کی خفگی اسی طرح برقرار تھی ”اور رات کو میں تمہیں کھانے پر نہیں لے جا سکوں گا کیونکہ مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کل بنایا ہوا پروگرام کینسل کرتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ۔۔۔” اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر جنید نے فون بند کر دیا۔
علیزہ نے مایوسی سے اپنے موبائل کو دیکھا ”آخر دوسرے میرا پوائنٹ آف ویو کیوں نہیں سمجھتے۔ عمر جہانگیر کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔ تب بھی جب وہ غلط ہو۔” اس نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!