Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

شام کو وہ واپس گھر آئی تو نانو کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔ علیزہ کے ڈپریشن میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں توقع بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اس طرح مجھ سے جھوٹ بولو گی۔” انہوں نے رات کو کھانے کی میز پر بولنا شروع کر دیا۔
”تم بہت خود سر ہو گئی ہو علیزہ !” علیزہ نے خاموشی سے کھانا کھاتے کھاتے چمچہ اپنی پلیٹ میں پٹخ دیا۔
”میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جس پر آپ سب اسی طرح مجھے ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”ہماری فیملی کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ تم سڑکوں پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہو۔۔۔” اور وہ بھی اپنی ہی فیملی کے ایک فرد کے خلاف۔” نانو بری طرح مشتعل تھیں اس کے آنسوؤں نے بھی ان کو متاثر نہیں کیا۔ ”تم اب بچی نہیں ہو علیزہ کہ اس طرح کی حماقتیں کرتی پھرو اور میں تمہیں کور کروں۔ انگیجڈ ہو۔ اپنی فیملی کا نہیں تو اپنے ان لاز کا ہی خیال کیا کرو، کیا سوچتے ہوں گے یہ تصویر دیکھ کر وہ تمہارے بارے میں اور ہمارے بارے میں اور خاص طور پر جنید، وہ کیا سوچتا ہوگا تمہارے بارے میں جس سے تم نے کل بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولا تھا کہ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ فورٹریس گئی تھیں۔”



”کچھ بھی نہیں سوچتا…وہ اور اس کے گھر والے ، بس آپ کو ہی زیادہ فکر ہے کیونکہ یہ عمر کا مسئلہ ہے اور عمر کے خلاف تو آپ کبھی بھی سچ نہیں سن سکتیں۔”
”بد تمیزی مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا۔
”اس میں بد تمیزی والی کیا بات ہے، عمر نے کیوں صالحہ پر حملہ کروایا تھا؟ اب اگر کروایا ہے تو بھگتے۔”
عمر نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ وہ اس کی تردید کر چکا ہے۔”
”آپ کیا بات کرتی ہیں نانو…وہ تردید نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ کیا یہ کہے گا کہ ہاں میں نے ہی حملہ کروایا ہے۔”
”مگر اس سارے معاملے سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ تم کیوں انوالو ہو رہی ہو اس میں۔ عمر جانے یا صالحہ…تم خواہ مخواہ۔۔۔” علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔
”میں کیا انوالو ہو رہی ہوں۔ ایک واک اٹینڈ کر لی، تو آپ سب مجھے اس طرح ملامت کرتے ہیں، آپ نے کبھی عمر کو اس طرح ڈانٹا ہے جس طرح مجھے ڈانٹ رہی ہیں جب کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور عمر بہت سارے غلط کام کرتا ہے۔”
”صحیح کام…کون سا صحیح کام…یہ سڑکوں پر کھڑے ہونا، یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری کہ تم اس طرح سڑکوں پر خوار ہوتی پھرو۔ شرم آنی چاہیے۔ آج تک ہمارے خاندان کی کسی عورت نے ایسے کام نہیں کیے جیسے تم کر رہی ہو۔ لوئر مڈل کلاس والی ذہنیت ہوتی جا رہی ہے تمہاری اور کل کو سکندر فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھے تو کیا کہوں اس سے میں کہ یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔” وہ بولتی جا رہی تھیں۔ علیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے غصہ میں کھانا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
اگلے دن وہ آفس میں کام کر رہی تھی جب دوپہر کے قریب اسے پتا چلا کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کے احتجاج کی وجہ سے عمر کو معطل کر دیا تھا اور اس کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔



آفس میں یہ خبر خاصی دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ سنی گئی تھی۔ خاص طور پر صالحہ خاصی خوش تھی اور علیزہ کو یہ خبر بھی اسی نے سنائی تھی۔ علیزہ نے اسے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد دی مگر اس خبر کو سنتے ہی اسے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ شاید وہ یہ توقع ہی نہیں کر رہی تھی کہ عمر کو بالآخر معطل کر دیا جائے گا، اسے یہی توقع تھی کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح عمر بھی بچ جائے گا مگر اب یہ خبر…
”عمر کے ساتھ ٹھیک ہوا، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ، جو کچھ اس نے کیا۔ اس کی سزا تو اسے ملنی چاہیے تھی۔” وہ آفس میں سارا وقت اپنی افسردگی کو دور کرنے کے لیے خود سے کہتی رہی مگر اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو گیا۔
جنید نے اس دن بھی اسے فون نہیں کیا تھا اور وہ جانتی تھی اگلے دن اخبارات میں اس کی معطلی کی خبر سن کر اس کی ناراضی میں اور اضافہ ہوگا نہ صرف اس کی ناراضی میں بلکہ نانو کے غصے میں بھی جو عمر کی معطلی کا ذمہ دار بھی اسے ہی سمجھیں گی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!