اس کا اندازہ ٹھیک تھا، اگلے دن اخبارات میں عمر کی معطلی کی خبر پڑھنے کے بعد نانو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ علیزہ ناشتہ کرتے ہوئے بڑی خاموشی سے ان کی تندوتیز گفتگو سنتی رہی۔ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
”تم کو اندازہ ہے عمر کی معطلی سے اس کا کیریئر کس بری طرح متاثر ہو گا۔ میں پہلے ہی تمہاری اس تصویر کی وجہ سے ایاز اور جہانگیر کی بہت سی باتیں سن چکی ہوں، اپنے خاندان کے خلاف اس قسم کی ریلیز اور واکس میں حصہ لے کر تمہیں کیا مل گیا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اپنے ہی خاندان کے خلاف اس طرح کی حرکتیں کرے۔” انہوں نے اشتعال کے عالم میں بولتے ہوئے کہا۔
”ایاز تو اس قدر ناراض ہو رہا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ خود تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر میں نے سمجھا بجھا کر اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ تمہارے لیے ان سب نے کیا کیا نہیں کیا علیزہ اور تم ہو کہ خود اپنے ہی خاندان کو رسوا کرنے پر تلی ہو۔”
”نانو! یہ سب میں نے نہیں، عمر نے۔۔۔” علیزہ نے پہلی بار اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”نام مت لو عمر کا…کچھ نہیں کیا اس نے ، جو بھی کیا ہے تم نے کیا ہے۔ صالحہ، صالحہ… کیا ہے یہ صالحہ…کیوں ہمارے خاندان کے پیچھے پڑ گئی ہے اور تم …تم اس لڑکی کو اپنا دوست کہہ کہہ کر گھر لاتی رہیں۔” نانو سے غصے میں اپنی بات مکمل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
علیزہ نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جانتی تھی، اس کی کہی ہوئی کوئی بات بھی اس وقت نانو کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
٭٭٭
اپنی معطلی کے دو دن کے بعد عمر لاہور میں تھا اور اس نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے خلاف یہ تمام الزامات لگانے والوں کے سیاسی مفادات ہیں۔ اس نے خاص طور پر اپنے علاقے کے کچھ سیاسی گھرانوں کو اس تمام مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اس کی ٹرانسفر کروا کر اپنی مرضی کے شخص کو وہاں لانا چاہتے ہیں اور اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے صالحہ پرویز کو اس کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آفس میں شام تک اس کی پریس کانفرنس ہی ڈسکس ہوتی رہی۔ سب کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ عمر جہانگیر نے اس طرح دھڑلے سے ان سیاسی گھرانوں کا نام لیا تھا جو صوبائی اور مرکزی حکومت کا حصہ تھے۔ سب کو یقین تھا کہ اس نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔
”اب یہ شخص نہیں بچ سکے گا…پہلے تو شاید یہ بچ جاتا مگر اب ان سیاسی گھرانوں کو اس طرح دھڑلے سے انوالو کرنے کے بعد پیچھے سے اسے بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔” حسین نے لنچ آور کے دوران کہا وہ ان دو رپورٹرز میں سے ایک تھا جو اس پریس کانفرنس کو کور کرنے گئے تھے۔
”مجھے تو احمق لگا ہے یہ شخص…ایک تو اس طرح پریس کانفرنس کرنا حماقت تھی۔ اس پر مزید ڈسپلنری ایکشن ہو سکتا ہے اس کے خلاف اور دوسرے اس سٹیج پر اس طرح سیاست دانوں کو انوالو کرنا، وہ بھی وہ جو حکومت میں ہیں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔” دوسرے رپورٹر نواز نے تبصرہ کیا۔
”مگر مجھے اس شخص کے اطمینا ن اور سکون نے حیران کیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی معطلی سے پریشان ہے اورپھر جس طرح وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں ہر بات سے انکار کر رہا تھا۔ میں تو اس سے خاصا متاثرہوا۔
مس علیزہ! آپ کا یہ کزن ہے ٹیلنٹڈ۔۔۔”حسین نے اپنی کرسی کو تھوڑا سا گھماتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
سب کی طرح حسین کی بات پر اس نے بھی کچھ مسکرانے کی کوشش کی۔
”مگر بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ سمارٹ ہونا ہی بندے کو مروا دیتا ہے، اوور سمارٹ ہونا۔۔۔” نواز نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔
”میں تو اس وقت خاصا حیران ہوا، جب اس نے ان سیاسی گھرانوں کا باقاعدہ نام لیتے ہوئے اس سارے معاملے میں انوالو کیا۔ کوئی دوسرا بیورو کریٹ تو ایسا کر ہی نہیں سکتا اور وہ بھی تب جب وہ معطل بیٹھا ہو۔ اب دیکھتے ہیں کل کے دوسرے اخبارات اس پر کیسی خبریں لگاتے ہیں۔ ” نواز نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اپنی بات کو ختم کیا۔ علیزہ نے اس شام کو ایک بار پھر جنید سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسے ناکامی ہوئی۔ موبائل پر اس کی کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔ اس نے دوبارہ اس کے گھر فون کیا۔ فون فری نے اٹھایا تھا رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جنید کے بارے میں پوچھا۔
”جنید بھائی ابھی گھر نہیں آئے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آفس میں ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا…ہو سکتا ہے، آفس میں ہی ہوں۔” فری نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
”مگر آفس تو بند نہیں ہو جاتا اس وقت ؟”
”ہاں ، ہو تو جاتا ہے، مگر بعض دفعہ اگر کام زیادہ ہو تو نہیں بھی ہوتا۔ ویسے بابا تو گھر آگئے ہیں، اس کا مطلب ہے کام زیادہ نہیں ہے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ ان کے موبائل پر رنگ کیوں نہیں کرتیں؟” فری کو اچانک خیال آیا۔
”میں نے موبائل پر کال کی ہے مگر اس نے کا ل ریسیو نہیں کی۔ ” علیزہ نے اسے بتایا۔