”اچھا، آپ ایک منٹ ہولڈ کریں، میں بابا سے پوچھ کر آتی ہوں کہ کیا وہ آفس میں ہیں۔” فری نے اسے ہولڈ کرواتے ہوئے کہا۔ چند منٹ کے بعد وہ دوبارہ لائن پر آگئی۔
”بابا کہہ رہے ہیں کہ وہ آفس میں نہیں ہیں۔ بابا سے کچھ دیر پہلے چلے گئے تھے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔
”آپ یا تو ان کے موبائل پر دوبارہ کال کریں یا پھر کچھ انتظار کریں، وہ گھر آتے ہیں تو میں انہیں آپ کی کال کے بارے میں بتا دوں گی۔”
”میں کچھ دیر بعد دوبارہ کال کروں گی۔”
”چلیں ایسا کر لیں…ویسے وہ آنے ہی والے ہوں گے۔” فری نے کہا۔ علیزہ نے خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
پچھلے چند دنوں سے جنید سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہو ا تھا۔ وہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گیا تھا اور اس کی اس خاموشی نے علیزہ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ آج وہ جنید سے اس معاملے پر ایک بار پھر بات کرنا چاہتی تھی۔
رات گیارہ بجے کے قریب اس نے جنید کو ایک بار پھر فون کیا۔ فون اس بار بھی فری نے ریسیو کیا تھا۔ علیزہ کی آواز سنتے ہی اس نے کہا۔
”بھائی تو کافی دیر ہوئی، گھر آگئے تھے اور میں نے انہیں آپ کی کال کا بھی بتایا تھا بلکہ آپ کو فون کرنے کا کہا تھا کیا انہوں نے آپ کو فون نہیں کیا؟”
”نہیں…تم میری ان سے بات کروا دو۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”اچھا آپ ہولڈ کریں۔”فری نے ریسیو ر رکھتے ہوئے کہا۔ علیزہ انتظار کرنے لگی۔ اس بار فری کی واپسی ایک لمبے انتظار کے بعد ہوئی تھی۔
”میں نے انہیں آپ کے فون کا بتایا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ سے کہہ دوں کہ وہ سو گئے ہیں۔” فری نے ریسیور اٹھاتے ہی بڑی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آپ لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟” اس بار فری نے قدرے تشویش سے پوچھا۔ ”حالانکہ آپ دونوں جس مزاج کے ہیں۔ ایسے کسی واقعے کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔”
”آپ ایسا کریں کہ ایک بار پھر ہولڈ کریں۔ میں ان سے جا کر کہتی ہوں کہ آپ نے مجھے انہیں جگانے کے لیے کہا ہے۔” علیزہ نے اسے منع کرنا چاہا مگر دوسری طرف سے ریسور رکھ دیا گیا۔ اس بار ایک لمبے انتظار کے بعد اسے ریسیور پر جنید کی آواز سنائی دی۔
”تمہیں کوئی کام تھا؟” رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے بہت سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔
”جنید ! کیا یہ ضروری ہے کہ مجھے کوئی کام ہو تو ہی میں آپ کو فون کروں۔”
”ہاں، بہتر یہی ہے۔” علیزہ کو اس کے لہجے اور انداز پر تکلیف ہوئی ۔
”میں ویسے ہی آپ سے بات کرنا چاہتی تھی۔ کافی دن سے ہماری بات نہیں ہوئی اس لیے۔”
”تو اس کے لیے مجھے جگانے کی ضرورت تو نہیں تھی۔ تم صبح مجھے فون کر سکتی تھیں۔”
”میں نے آپ کو جگایا نہیں ہے، فری نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ سو نہیں رہے ہیں۔” دوسری طرف وہ کچھ دیر خاموش رہا۔
”ٹھیک ہے، پہلے نہیں سو رہا تھا اب سونا چاہ رہا ہوں گا۔ تم بات کرنا چاہتی تھیں۔ بات ہو گئی۔ اب میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”کیا آپ کی ناراضی کبھی ختم ہو گی؟”
”میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ناراض اس شخص سے ہوتے ہیں جسے آپ کی پروا ہو، تم سے ناراض ہو کر تو۔” وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”میں سونے کے لیے جا رہا ہوں، تم دوبارہ فون مت کرنا،” اس نے اس بار اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فون بند کر دیا۔
علیزہ کو بے اختیار جھنجھلاہٹ ہوئی۔ اس کا دل چاہا وہ فون توڑ دے… ”ہر ایک نے عمر کے بجائے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ عمر کے بجائے مجھے معذرتیں کرنی پڑ رہی ہیں، مجھے وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں اور یہ جنید ایسا تو نہیں تھا پھر اسے کیا ہو گیا ہے، ایک چھوٹی سی بات کو کیوں اس طرح رائی کا پہاڑ بنا رہا ہے۔ کیا صرف عمر جہانگیر کی وجہ سے یہ مجھ سے اس طرح ناراض ہو گیا ہے۔ صرف عمر کی وجہ سے جس سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے جس سے یہ کبھی ایک بار سے زیادہ ملا تک نہیں۔ کیا صرف اس شخص کے لیے مجھے اس طرح اگنور کر رہا ہے۔” وہ جوں جوں سوچ رہی تھی اس کی جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔
”کیا اسے میری پروا نہیں ہے؟ ذرہ برابر بھی کہ اس کے اس طرح کے رویے سے میں کتنی ڈسٹرب ہو رہی ہوں اور یہ عمر جہانگیر کب تک یہ شخص آسیب کی طرح میری زندگی پر منڈلاتا رہے گا۔” وہ ساری رات کھولتی رہی۔