”ہاں واقعی آج میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایک فنکشن کی کوریج کرنی تھی۔ وہ میں کر آئی ہوں۔ چند چھوٹے موٹے دوسرے کام تھے۔ وہ بھی کر چکی ہوں۔ اس لیے آج میری کوئی اور مصروفیت نہیں ہے۔”
”یعنی راوی چین ہی چین لکھتا ہے تمہارے لیے۔” علیزہ نے تبصرہ کیا۔
”کہہ سکتی ہو، کم از کم آج تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ دو دن سے تو ویسے بھی میں تعریفی کالز اور کلمات کا ڈھیر اکٹھا کرتی پھر رہی ہوں۔” صالحہ نے فخریہ انداز میں کہا۔
علیزہ نے سر اٹھائے بغیر صرف نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بولتی جا رہی تھی۔
”حالانکہ مجھے شرمندگی بھی ہو رہی ہے کہ اس آرٹیکل میں میرا کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہے۔ سارا کام تو زین العابدین کا ہے۔ میں نے تو صرف ایک دو گھنٹے بیٹھ کر اس کی دی گئی معلومات پر وہ آرٹیکل لکھ دیا۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لے کر اپنے سامنے پڑی فائل بند کرکے ایک طرف سرکا دی۔ صالحہ اب بھی بول رہی تھی۔
”اگر اصل کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو وہ زین العابدین کو جاتا ہے مگر تم زین العابدین کو دیکھو۔ اس نے خود بھی فون کر کے مجھے اتنا اچھا آرٹیکل لکھنے پر سراہا ہے۔” صالحہ نے زین العابدین کی تعریف کی۔
”ویسے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس آدمی کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے ورنہ جس طرح کی معلومات اس کے پاس اس آسانی سے پہنچ جاتی ہیں، وہ کبھی کسی دوسرے کے پاس نہیں پہنچ سکتیں۔” وہ اپنی کرسی کو جھلاتے ہوئے تحسین آمیز انداز میں بولی۔
”تمہیں پتا ہے علیزہ! عمر جہانگیر اور رضی محمود کے خلاف انکوائری شروع ہونے والی ہے۔” بات کرتے کرتے اچانک صالحہ کو جیسے کچھ یاد آیا۔
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟” علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہاں واقعی تمہیں کیسے پتا ہو سکتا ہے۔ بہرحال مجھے یہ خبر بھی زین العابدین نے دی ہے۔ تم خود سوچو۔ کتنا زبردست امپیکٹ پڑے گا اس آرٹیکل کا اور میرا کہ ایک آرٹیکل کی وجہ سے مجبور ہو کر کسی بیورو کریٹ کے خلا ف کارروائی شروع کر دی جائے۔” صالحہ کے لہجے میں جوش تھا ”اور وہ بھی عمر جہانگیر اور رضی محمود جیسے بیورو کریٹس کے خلاف…پاکستان کے سب سے طاقتور ترین خاندانوں میں سے دو کے خلاف، تصور کرو۔”
علیزہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، صالحہ کو ابھی اس نیوز پیپر کو جوائن کیے دو تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی تھی مگر اب اس نے علیزہ کے اخبار کو جوائن کر لیا تھا اور پہلے دن سے ہی علیزہ کے ساتھ اس کی بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کی فیملی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں نہ علیزہ نے کبھی اپنے انکلز اور کزنز کے بارے میں وہاں کسی کو بتایا تھا نہ ہی صالحہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے بارے میں بات کی تھی اور اب وہ علیزہ کو عمر جہانگیر اور اس کے خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی تھی۔
”عمر جہانگیر کے خاندان کو بدمعاشوں کا ٹولہ کہا جا سکتا ہے۔” علیزہ کا چہرہ صالحہ کے تبصرے پر سرخ ہو گیا۔ صالحہ ہمیشہ بے لاگ قسم کے تبصرے کیا کرتی تھی۔ اس سے پہلے اس کے ایسے کسی تبصرے نے علیزہ کو کبھی پریشان نہیں کیا کیونکہ ایسے تبصرے کا تعلق اس سے نہیں تھا مگر اب وہ براہ راست اس کے خاندان کی بات کر رہی تھی اور علیزہ سننے پر مجبور تھی۔
”میں تو حیران ہو گئی، زین العابدین سے اس کے خاندان کے بارے میں سن کر۔ کسی دوسرے ملک میں یہ لوگ ہوتے تو ڈیڑھ سو سال کی قید کاٹ رہے ہوتے۔ بیوی بچوں سمیت…مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ پاکستان میں ہیں اور اس Land of the pure میں گُل چھرے اڑا رہے ہیں۔” صالحہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اور ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ آج کہیں اس فیملی کے حوالے سے تعارف کروایا جائے تو ریڈ کارپٹڈ استقبال ہوگا، سمجھ نہیں آتا ایسے سسٹم پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔”
علیزہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہیں پتا ہے، پچھلے سال ان لوگوں نے میرے انکل اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟” صالحہ نے دوسرا قصہ شروع کیا۔
”میرے انکل کے بیٹے کو ایک جھوٹے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔”
علیزہ کا سانس یکدم رک گیا۔
”میرے انکل کے بیٹے اور اس کے تین دوستوں کو۔”
علیزہ کو لگا اس کی خاموشی اب کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔
”ایک یہ عمر جہانگیر تھا، ایک اس کا کزن تھا عباس حیدر۔ ابھی ایک سال کے بعد باہر سے آیا ہے، لاہور میں پوسٹنگ ملی ہے۔ ان دونوں نے میرے کزن کو اس کے گھر سے اٹھوا کر قتل کر دیا۔ تم نے پڑھی ہو گی یہ خبر۔ جسٹس نیاز کا نام بھی سنا ہو گا؟”
وہ اب علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔ علیزہ سر نہیں ہلا سکی۔
”اور اس پر اور اس کے دوستوں پر الزام یہ لگایا تھا کہ ان چاروں نے کسی گھر پر ڈاکہ ڈالا تھا اور وہاں سے فرار ہوتے ہوئے پولیس کے ساتھ مقابلے میں مار دیئے گئے۔” صالحہ اب غصے کے عالم میں بول رہی تھی۔
”مگر یہ سب جھوٹ تھا، ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں تھا اس رات۔ پولیس چوروں کی طرح رات کو انہیں ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئی اور قتل کر دیا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہاتھوں کی لرزش کو چھپایا۔