”تم ثمین کے ساتھ چلی جانا۔ میں اگر آ بھی گئی تو تمہارے ساتھ نہیں جا پاؤں گی۔” علیزہ نے پیشگی معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آج ہی ثمین کو انفارم کر دیتی ہوں۔ یہ نہ ہو کل وہ بھی نہ آئے۔” صالحہ نے آفس سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ اپنا بیگ اٹھا کر صالحہ کے پیچھے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔ باہر پارکنگ تک آتے ہوئے وہ مکمل طور پر ذہنی طور پر ماؤف تھی۔ صالحہ کے منہ سے نکلے ہوئے جملے اس کے ذہن میں گونج رہے تھے اور اسے ان پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے یاد نہیں اس نے گاڑی کس طرح پارکنگ سے نکالی تھی۔ سگنل پر گاڑی روکے وہ اس وقت ہوش میں آئی، جب کسی نے اس کی کھڑکی کے شیشے پر بڑے زور سے ہاتھ مارا، وہ یکدم چونک کر جیسے اپنے اردگرد کے ماحول میں واپس آگئی۔ وہ ایک آدمی تھا جو اب خشمگیں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے پیچھے بری طرح بجنے والے ہارن کا شور تھا۔ اس نے گڑبڑا کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ سٹیرنگ بار بار اس کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ اسے یکدم خوف محسوس ہوا کہ گاڑی کہیں نہ کہیں ٹکرا جائے گی۔ سپیڈ ہلکی کرتے ہوئے اس نے مین روڈ سے ایک ذیلی سڑک پر گاڑی موڑ دی اور پھر اسے سڑک کے کنارے روک دیا۔
”کیا یہ لوگ میرے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ سکتے ہیں؟” اس نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا ”کیا یہ لوگ مجھے اس طرح سیکنڈ لائز کر سکتے ہیں؟” وہ اب بھی جیسے بے یقینی کا شکار تھی۔ ”کیا خود کو بچانے کے لیے یہ اس طرح میری قربانی دے سکتے ہیں۔”
”کیا مجھے اس طرح۔۔۔” اس نے اپنے اردگرد بے تحاشا گھٹن محسوس کی۔
”کیا عمر بھی اس طرح کر سکتا ہے؟” اسے اپنا سوال ایک مذاق لگا ”میں نے کس کو سب کچھ بتایا۔ جسٹس نیاز کو؟”
سارے پردے یکدم اٹھنے لگے تھے۔
”یا پھر میں تو ان سے بات بھی نہیں کر سکی ہوں گی۔ کیا اسی لیے وہ میرے منہ سے پورا واقعہ سن کر بھی اسی طرح پرسکون تھے۔ مجھے اس وقت یہ ردعمل مصنوعی کیوں نہیں لگا۔” وہ اب اس واقعے اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی اپنی پوری گفتگو کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ”یہ لوگ پہلے ہی پورا انتظام کر چکے تھے کہ میرا رابطہ جسٹس نیاز سے نہ ہو اسی لیے عمر نے اتنی بے خوفی سے مجھے جسٹس نیاز سے بات کرنے کے لیے کہہ دیا کیونکہ وہ۔۔۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اور گھر پر وہ حملہ …میرے خدا…وہ بھی جعلی تھا…صرف مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے…مجھے دھوکہ دینے کے لیے اسی لیے وہ لوگ اندر نہیں آئے۔ اسی لیے یہ دونوں وہاں پہنچ گئے تھے اور کس کس کو پتا تھا یہ سب کچھ…کیا نانو کو بھی؟”
غم و غصے سے اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔
”اور میں …میں عمر کو کیا سمجھ رہی تھی۔ اپنا نجات دہندہ…اور وہ حقیقت کیا تھی…بلکہ یہ سب ہی کیا تھا؟” وہ ونڈ سکرین سے نظر آنے والی سڑک کو گھو ر رہی تھی۔
”اور مجھے…مجھے کبھی ان پر شک تک نہیں ہوا کہ یہ میرے ساتھ کوئی گیم کررہے ہیں۔ اس قدر اندھا اعتماد۔۔۔”اس کی آنکھوں میں اب نمی اترنے لگی۔
”واقعی…واقعی دنیا میں کوئی مجھ جتنا احمق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ میرے علاوہ دنیا میں کوئی احمق ہے ہی نہیں۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں اور گاڑی کو سٹارٹ کرنے لگی ”اور اب یہ ایک بار پھر جنید کے ذریعے مجھے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب نہیں…اور نہیں…تم بھاڑ میں جاؤ عمر…! میں واقعی چاہتی ہوں کہ تمہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے اور صرف تمہیں نہیں باری باری سب کو۔۔۔”
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلا رہی تھیں۔
٭٭٭