شام کو چھ بجے وہ اپنے گھر میں داخل ہوئی اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے پورچ میں جنید کی گاڑی دیکھ لی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا وہ وہیں سے واپس پلٹ جائے، اس وقت اس موڈ کے ساتھ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ لاؤنج میں نانو کے ساتھ موجود تھا اور چائے پینے میں مصروف تھا، جب وہ لاؤنج میں داخل ہوئی ۔ رسمی سی علیک سلیک کرنے کے بعد وہ جنید کی مصالحانہ مسکراہٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”مجھے لگتا ہے…اس کا موڈ ابھی بھی آف ہے۔” جنید نے اسے لاؤنج سے نکلتے دیکھ کر کہا۔
”موڈ تو اس کا صبح سے ہی ایسا ہے ٹھہرو میں اسے بلا کر لاتی ہوں۔” نانو نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ بیٹھیں۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں۔۔۔” جنید اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
وہ جس وقت دروازے پر دستک دے کر اندر آیا، وہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے جنید کے اس طرح اپنے پیچھے آ جانے کی توقع نہیں تھی مگر جب اس نے اسے اندر آتے دیکھا تو صرف سر جھٹک کر رہ گئی۔
”میں بیٹھ جاؤں؟” جنید نے اندر آتے ہی اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ضرور۔۔۔”
جنید کرسی کھینچ کر بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کمرہ میں خاموشی رہی، شاید وہ بات شروع کرنے کے لیے کچھ لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا، پھر جیسے وہ اس میں ناکام ہو گیا۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”اب یہ تو تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ، جنید نے اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے کہا ”میں معذرت کرنے آیا تھا۔”
”کس لیے؟”
”کل کچھ اچھا نہیں کیا میں نے…عام طور پر ایسا کرتا تو نہیں مگر۔۔۔” وہ سوچ سوچ کر بولتے ہوئے جیسے افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”اچھا۔۔۔” جنید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”میرا خیال تھا، اس کی ضرورت ہو گی۔ آفٹر آل۔ تم مجھ سے ناراض تھیں۔”
”میں ناراض تھی…؟میرا خیال ہے آپ ناراض تھے۔” علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں ناراض تھا؟ سچ بتاؤں۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکا ”میں واقعی کچھ ناراض تھا مگر وہ عارضی طور پر۔ میں نے بعد میں گھر جا کر سوچا، تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اب میں یہاں ہوں۔” اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے چند لمحوں کے لیے علیزہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ذہن میں کچھ دیر پہلے صالحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو گونجنے لگی تھی۔
جنید نے اپنی بات کے ختم ہونے پر بھی اسے اپنی طرف خاموشی سے دیکھتے پایا۔
”تم کچھ کہو گی نہیں؟” اس نے علیزہ سے کہا وہ پھر بھی اسے اسی طرح دیکھتی رہی اور تب ہی جنید کو احساس ہوا کہ وہ اس وقت غائب دماغ تھی اور شاید اسے دیکھتے ہوئے بھی کہیں اور تھی۔
”علیزہ…!” اس نے بلند آواز میں اسے پکارا وہ یکدم ہڑبڑا کر چونکی۔