جنید لاپروائی سے کہتا گیا۔ علیزہ نے غیر محسوس طور پر اپنے کندھوں سے جیسے کوئی بوجھ ہٹتا محسوس کیا۔
”بہرحال ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو تم اپنے اعصاب پر سوار مت کیا کرو۔ ویسے بھی ابھی تو ہم دونوں کے درمیان خاصے جھگڑے باقی ہیں۔” وہ خوشگوار لہجے میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”حالانکہ تم سے جھگڑنا کوئی زیادہ مناسب بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بہت خوشگوار قسم کا تجربہ ثابت ہوا ہے میرے لیے۔ میں خود بھی کل را ت اور آج سارا دن خاصا ڈسٹرب رہا ہوں لیکن کبھی کبھی روٹین سے ہٹ کر بھی کوئی کام کرنا چاہیے…کرنا چاہیے نا…؟” وہ اب بڑی سنجیدگی سے اس کی رائے مانگ رہا تھا۔
علیزہ کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔ اس نے کندھے اچکا دیئے۔
”باہر چلتے ہیں کھانا کھاتے ہیں، کسی مارکیٹ میں پھرتے ہیں۔ کچھ ونڈو شاپنگ کرتے ہیں۔ اچھا پروگرام ہے؟” وہ کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
وہ چند منٹوں میں اسے اس کے ڈپریشن سے باہر لے آیا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود کچھ دیر پہلے کی کیفیات کو محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔
”میں کپڑے چینج کر لوں؟” وہ بھی بیڈ سے اٹھ گئی۔
”چھوڑیے جناب ! تکلف نہ کریں…آپ اس طرح زیادہ اچھی لگ رہی ہیں۔” جنید نے اسے روک دیا۔
”اچھا بال بنا لوں۔” اسے تامل ہوا۔
”ضرورت نہیں، بال ٹھیک ہیں۔”
”مجھے منہ تو دھو لینے دیں۔”
”ہاں یہ آپ ضرور کر سکتی ہیں لیکن ساٹھ سیکنڈ سے زیادہ کا وقت نہیں لگنا چاہیے اس میں۔” وہ اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے بولا۔
علیزہ کو چہرہ دھوتے واقعتا صرف ایک منٹ لگا۔ برق رفتاری سے چہرے پر پانی کے چھپاکے مارتی، وہ ایک منٹ میں واش روم سے باہر تھی۔
جنید نے اسے باہر آتے دیکھ کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ ”بس اب آپ آ جائیں۔ خاصا انتظار کیا میں نے آپ کا!”
علیزہ نے حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔” خاصا انتظار؟” وہ بے اختیار مسکرایا۔
رات دس بجے تک وہ دونوں باہر رہے پھر وہ اسے گھر چھوڑنے آیا۔ پورچ میں گاڑی روک کر اس کے اترنے سے پہلے جنید نے کہا۔ ”تم جانتی ہو کسی بھی تعلق کو کیا چیز مضبوط بناتی ہے؟” وہ اس کے سوال پر اس کا منہ دیکھنے لگی، وہ اب بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر پہلے کے جنید سے بالکل برعکس۔
Sharing” کہ جو چیز پریشان کن بن جائے اسے اس شخص کے ساتھ شیئر کر لیا جائے جس سے آپ کو تھوڑی بہت محبت ہو یا تھوڑا بہت انس ہو یا جو تھوڑا بہت اچھا لگتا ہو۔” وہ مدھم مگر مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”میں تمہیں مجبور نہیں کر سکتا کہ تم ہر بات مجھ سے شیئر کرو۔ شاید کوئی بھی ہر بات دوسرے سے شیئر نہیں کرتا مگر جو بات تم مجھ سے یا کسی دوسرے سے شیئر نہیں کر سکتیں، اسے اپنے ذہن سے نکال دو۔ تمہیں اگر کسی چیز سے تکلیف ہو گی تو مجھے بھی ہو گی۔ اس لیے کسی بھی چیز کو اپنے لیے رستا ہوا ناسور مت بناؤ ، تمہاری زندگی بے کار ہے نہ تمہارے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ تم اسے رونے دھونے میں ضائع کر سکو۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے…میرے گھر کو…میری فیملی کو علیزہ سکندر کی بہت ضرورت ہے۔ تم ہمارا حصہ ہو اور تم کو یہ بات ہر وقت یاد ہونی چاہیے۔” وہ بالکل ساکت تھی۔
”تو جو چیز بھی تمہیں آج پریشان کر رہی ہے، اسے اپنے ذہن سے نکال دو۔ کھانا تم کھا چکی ہو۔ اپنے بیڈ روم میں جاؤ۔ صبح کے لیے کپڑے نکال لو، ٹی وی دیکھ لو کچھ دیر یا پھر کوئی کتاب پڑھو۔ آفس کا کوئی کام ہو تو وہ کرو اور اس کے بعد اطمینان سے سو جاؤ۔ بغیر روئے دھوئے ۔ خدا حافظ۔”
وہ اپنی بات کے اختتام پر مسکرایا، وہ مسکرا نہیں سکی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ نیچے اتر آئی۔ لاؤنج کا دروازہ کھولتے ہوئے اس نے پلٹ کر اسے دیکھا، وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا بلکہ گاڑی ریورس کر رہا تھا۔ اسے جنید کی ذہانت میں کبھی بھی کوئی شبہ نہیں رہا تھا لیکن آج…
”تو وہ جانتا تھا کہ اس سے ہونے والا جھگڑا نہیں کوئی اور بات مجھے پریشان کر رہی تھی اور ۔۔۔” اس نے اندر جاتے ہوئے سوچا۔ کسی معمول کی طرح وہ اپنے کمرے میں گئی اور لاشعوری طور پر جنید کی ہدایات پر عمل کرتی چلی گئی۔ ایک گھنٹہ کے بعد غنودگی کے عالم میں اس نے سوچا۔۔۔”اور میرا خیال تھا میں آج رات سو نہیں پاؤں گی۔”
٭٭٭