اگلے روز وہ بڑے ہشاش بشاش موڈ میں ناشتے کی میز پر آئی، نانو کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ ناشتہ کر رہی تھی جب اس نے اخبار بھی دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک صفحے پر نظر دوڑاتے ہی وہ یکدم ٹھٹھک گئی۔ صالحہ پرویز کا ایک اور آرٹیکل اس کے سامنے تھا۔ موضوع اس بار بھی عمر جہانگیر ہی تھا مگر ڈسکس کی جانے والی چیز چند ہفتے پہلے ہونے والا ایک پولیس مقابلہ تھا جس میں ایک بدنام زمانہ اشتہاری مجرم کو مارا گیا تھا۔
صالحہ نے اپنے آرٹیکل میں ثبوت کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ وہ پولیس مقابلہ جعلی تھا۔ وہ مجرم دس دن پولیس کی حراست میں رہا تھا اور پولیس نے تشدد کے ذریعے اس سے خاصی لمبی چوڑی معلومات بھی حاصل کی تھیں جن کی مدد سے انہوں نے چند اور ملزمان کو بھی اسی طرح پکڑا تھا اس کے آرٹیکل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چند تنظیموں کے عہدے داران کی طرف سے عمر جہانگیر کے اقدامات کی مذمت اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ ”مجرم بھی بنیادی انسانی حقوق رکھتے ہیں” کے عنوان سے لکھا گیا آرٹیکل بہت موثر انداز میں لکھا گیا تھا۔
علیزہ نے اخبار رکھ دیا۔ اس کی بھوک یکدم غائب ہو گئی۔ صالحہ نے اس بار اس سے ذکر نہیں کیا تھا کہ وہ عمر جہانگیر پر ایک اور آرٹیکل لکھ رہی ہے یا وہ آرٹیکل آج ہی چھپنے والا تھا۔ علیزہ کے لیے وہ آرٹیکل یقیناً ایک شاکنگ سرپرائز کے طور پر آیا تھا۔
”تم نے ناشتہ کیوں چھوڑ دیا؟” نانو نے اسے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”بس مجھے اتنی ہی بھوک تھی۔” اس نے بے دلی سے کہا۔
”کم از کم چائے تو پی لو۔” نانو نے ایک بار پھر اصرار کیا۔
”دل نہیں چاہ رہا۔” وہ اپنا بیگ اٹھا کر لاؤنج سے نکل آئی۔
آفس میں داخل ہوتے ہی صالحہ سے اس کا سامنا ہو گیا۔ وہ بھی اسی وقت آفس آرہی تھی، علیزہ نے اس سے آرٹیکل کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ وہ جانتی تھی، صالحہ خود ہی اسے آرٹیکل کے بارے میں بتا دے گی اور ایسا ہی ہوا، وہ علیزہ کے ساتھ ہی اس کے آفس میں آگئی اور اندر آتے ہی اس نے کہا۔
”تم نے میرا آج کا آرٹیکل پڑھا؟”
”ہاں صبح ناشتہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا تھا۔۔۔” علیزہ نے سرسری سے انداز میں کہا۔
”کیسا لگا تمہیں؟”
”اچھا تھا…اس کے بارے میں بھی تمہیں معلومات زین العابدین نے ہی فراہم کی ہیں؟”
”تو اور کون مجھے یہ ساری معلومات دے سکتا ہے۔ کسی دوسرے بندے کے پاس معلومات کا یہ ڈھیر ہو سکتا ہے؟” صالحہ نے تحسین آمیز انداز میں کہا۔ اس سے پہلے کہ علیزہ اسے کوئی جواب دیتی۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے ریسیور اٹھا لیا۔
”مس صالحہ پرویز آپ کے کمرے میں ہیں؟” آپریٹر پوچھ رہا تھا۔
”ہاں۔۔۔” علیزہ نے صالحہ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ان کی کال ہے۔”
”یہیں ڈائریکٹ کر دو…وہ میرے کمرے میں ہی بات کر لیں گی۔ فون کس کا ہے؟” اس نے آپریٹر کو ہدایت دیتے ہوئے سرسری سے انداز میں پوچھا۔
”عمر جہانگیر صاحب کا۔۔۔” آپریٹر نے اس کا عہدہ بتایا۔
”وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟” علیزہ نے کچھ دم بخود ہو کر آپریٹر سے پوچھا۔
”مس صالحہ پرویز سے۔۔۔”
علیزہ نے مزید کچھ کہے بغیر ریسیور صالحہ کی طرف بڑھا دیا۔
”کس کا فون ہے؟” صالحہ نے قدرے لاپروائی سے اس سے ریسیور لیا۔
”عمر جہانگیر کا۔”
صالحہ چونک گئی۔ ”عمر جہانگیر کا…؟ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے وہ؟”
علیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
صالحہ نے ریسیور پکڑ کر فون کا اسپیکر آن کیا اور ریسیور کو دوبارہ کریڈل پر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو اب دونوں سن سکتی تھیں۔
کچھ دیر بعد وہ لائن پر تھا، عمر جہانگیر نے کسی تمہید یا ادب آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس سے کہا۔