Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۲۱۔ عمیرہ احمد

اگلے دن وہ شام کو شہلا کے ساتھ کے ایف سی گئی جب ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے عمر کو وہاں دیکھا۔ علیزہ اور اس کی ٹیبل کے درمیان کافی فاصلہ تھا اور یہ صرف ایک اتفاق ہی تھا کہ علیزہ اور شہلا کی اپنے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے اس پر نظر پڑ گئی، کے ایف سی میں اس وقت خاصا رش تھا اور شاید یہ رش ہی تھا جس کی وجہ سے عمر انہیں نہیں دیکھ سکا۔ وہ ایک ٹیبل پر بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا مگر اس کی ٹیبل پر ایک اور فرد بھی موجود تھا۔ یقیناً اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔
شہلا نے عمر کو نہیں دیکھا اور علیزہ نے عمر کی وہاں موجودگی کے بارے میں اسے بتایا بھی نہیں، وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرتی رہیں مگر وقتاً فوقتاً علیزہ کی نظریں اس ٹیبل کی طرف جاتی رہیں جہاں پر عمر بیٹھا تھا۔
شہلا کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اس نے سو فٹ ڈرنک کاایک گھونٹ پیا اور پھر اسے جیسے اچھو سا لگا۔
”کیا ہوا علیزہ؟” شہلا نے دیکھا جو اپنے منہ کو صاف کرتے ہوئے کچھ ہکا بکا سی عمر کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو دیکھ رہی تھی۔
وہ جنید ابراہیم تھا۔



وہ پلکیں جھپکائے بغیر جنید کو عمر کے سامنے بیٹھے دیکھتی رہی، اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔
”تمہیں کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہیں تم؟” شہلا نے اسے متوجہ کیا مگر اس نے شہلا کی بات پر دھیان نہیں دیا وہ ابھی بھی ان ہی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ شہلا نے اس کے تاثرات کو نوٹ کیا اور گردن موڑ کر اس سمت دیکھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں کی جستجو کے بعد اس کی نظر عمر اور جنید پر پڑ گئی۔
”عمر جنید کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ ” شہلا نے بے اختیار گردن سیدھی کرتے ہوئے حیرانی سے کہا۔
”میری زندگی تباہ کرنے کی کوشش۔” علیزہ نے ان دونوں سے نظریں ہٹائے بغیر تلخی سے شہلا سے کہا۔ شہلا کچھ نہیں سمجھی۔ اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر عمر اور جنید کو دیکھا۔
”کیا یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟” شہلا نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا نہیں۔ عمر ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لینے والا آدمی ہے اور اس وقت گدھا جنید ہے۔ عمر سے زیادہ اچھی طرح کوئی کسی کو استعمال کرنے کا فن نہیں جانتا، بادشاہ ہے وہ اس کام میں۔” اس نے کوک کا گھونٹ لے کر اپنا اشتعال کم کرنے کی کوشش کی۔
”آج کل اسے جنید کی ضرورت ہے تو جنید حاضر ہے۔”
”کیوں جنید کی کیا ضرورت ہے اسے؟ اس سے کیا تعلق ہے اس کا؟” شہلا نے ٹشو سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔
”جنید کے ذریعے مجھے پریشرائز کیا جا سکتا ہے نا۔ جنید کے ذریعے مجھ سے ساری معلومات اور خبریں لی جا سکتی ہیں صالحہ کے بارے میں اور اس کے Source of information(ذرائع) کے بارے میں۔” اس نے بے دلی سے برگر اٹھایا۔
”جنید کو استعمال کرنا عمر جیسے آدمی کے لیے کیا مشکل ہے۔ میں بھی حیران تھی کہ جنید آخر اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ اسے آخر میرے ایک عدد کزن کے ساتھ کیوں ہمدردی ہو رہی ہے۔ کزن بھی وہ جسے وہ ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ان دونوں پر نظر ڈالی۔



”میرا اندازہ کتنا غلط تھا، میں سوچ رہی تھی شاید عباس نے جنید کو پریشرائز کیا ہوگا کیونکہ جنید کی ایک بہن کے ساتھ اس کی دوستی تھی مگر میں تو احمق تھی۔ مجھے پتا ہونا چاہیے تھا کہ عمر اتنا گرا ہوا شخص ہے کہ وہ خود بھی اس معاملے میں جنید سے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ ” اس کا چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”میں اب سوچتی ہوں شہلا! میں بہت خوش قسمت تھی جو اس شخص نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ورنہ میں اس جیسے خود غرض اور گھٹیا آدمی کے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتی تھی۔”
”ریلیکس اتنے غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں۔ مزید ٹینشن لینے تو نہیں۔” شہلا نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”تم جانتی ہو اس شخص کی وجہ سے پہلی بار جنید کے ساتھ میرا جھگڑا ہوا ہے۔” وہ اب بات کرتے ہوئے تقریباً روہانسی ہو گئی۔ ”اس کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے مگر اس کو تو ذرہ برابر بھی اس بات کی پروا نہیں ہو گی۔”
”مگر اس معاملے میں اب تم کیا کر سکتی ہو، جنید تم سے پوچھ کر تو ہر کام نہیں کرے گا۔ ” شہلا نے کہا
”ہاں مجھ سے پوچھ کر ہر کام نہیں کرے گا مگر میں چاہتی ہوں جنید عمر سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھے، وہ کبھی اس سے نہ ملے۔ ” اس نے ایک بار پھر ان کی طرف دیکھا ”اور تم دیکھو، جنید نے ایک بار بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ عمر مسلسل اس سے رابطے میں ہے۔” اس نے تلخی سے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!