Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کبھی بھی نہیں۔ عمر جہانگیر نام کے کسی شخص کو میں نہیں جانتی اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں۔”
عمر کے چہرے پر ایک سایہ سا گزرا۔ ”ٹھیک ہے…اور کچھ؟” اس نے بہت سکون سے علیزہ سے پوچھا۔
”اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔ وہ واپس مڑ گیا علیزہ وہاں نہیں رکی۔ وہ لمبے قدموں کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلی آئی۔
جنید کی امی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔
”ابھی تمہارا کزن آیا ہوا تھا۔” انہوں نے بڑے سرسری انداز میں کہا۔
”ہاں میں ملی ہوں باہر پورچ میں۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”تمہارا چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے؟” انہوں نے اچانک چونک کر علیزہ کو دیکھا۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔” علیزہ نے بہانہ بنایا۔ ”آپ عمر کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔” علیزہ نے بات کا موضوع بدلا۔
”وہ کس لیے یہاں آیا تھا؟” علیزہ نے ان سے پوچھا۔
”وہ بس ویسے۔۔۔” جنید کی امی روانی سے کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ ”یہ تو اس نے مجھے نہیں بتایا شاید جنید سے ملنے آیا ہوگا۔” جنید کی امی نے کہا۔



”ویسے اچھا ہے…کیوں علیزہ؟” جنید کی امی نے اس کی رائے لی۔
”عباس بھائی بھی آتے رہے ہوں گے پچھلے دنوں؟” علیزہ نے ان کے سوال کو گول کرتے ہوئے پوچھا۔
”عباس…کون؟” جنید کی امی کچھ الجھیں علیزہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”جنید کے دوست ہیں…وہ بھی میرے کزن ہیں انکل ایاز کے بیٹے۔”
”ہاں…ہاں یاد آیا…بس میرے ذہن سے ہی نکل گیا۔” جنید کی امی نے کچھ گڑبڑا کر کہا۔ ”عباس تو یہاں نہیں آیا۔”
”اچھا…پھر میرا خیال ہے انہوں نے جنید سے فون پر رابطہ کیا ہوگا؟” علیزہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں ہو سکتا ہے جنید اور اس کا فون پر رابطہ ہو۔ بہرحال وہ یہاں تو نہیں آیا۔” جنید کی امی نے کہا۔
”اور یہ عمر…کیا آج پہلی بار آیا ہے؟” علیزہ نے ایک خیال آنے پر ان سے پوچھا۔
”عمر…؟” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں۔۔۔”ہاں پہلی بار آیا ہے۔”
”کیا تمہیں اس کا آنا اچھا نہیں لگا؟” اس بار علیزہ ان کے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے اس کا یہاں آنا برا کیوں لگے گا؟”
”مجھے لگا کہ تمہیں برا لگا ہے۔”
”نہیں برا نہیں مجھے کچھ عجیب لگا ہے۔ عمر دراصل کہیں جاتا نہیں اس لیے۔” علیزہ نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
”مگر۔۔۔” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں اور انہوں نے علیزہ کو غور سے دیکھا۔ علیزہ کو یوں لگا جیسے ایک بار پھر وہ کچھ کہتے کہتے رکی ہیں۔
”تمہاری بہت تعریف کر رہا تھا۔”
انہوں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔ علیزہ نے جواباً کچھ نہیں کہا وہ صرف بات کرتے ہوئے انہیں دیکھتی رہی۔
”جنید کہہ رہا تھا کہ تم اسے زیادہ پسند نہیں کرتیں۔” انہوں نے یکدم اس سے کہا وہ چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکی اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اپنی امی سے ایسی کوئی بات کہہ دے گا اور خود جنید نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں عمر کو ناپسند کرتی ہوں۔ صرف پچھلے چند واقعات کی وجہ سے۔” وہ سوچنے لگی۔



”تم کیا سوچ رہی ہو علیزہ؟” جنید کی امی نے یکدم اس سے پوچھا۔
”نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔” اس نے یکدم چونک کر کہا۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا؟” جنید کی امی نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”میں اسے ناپسند نہیں کرتی۔ پتا نہیں جنید کو ایسا کیوں لگا۔ بس میری اس کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہماری ملاقات ہی بہت کم ہوتی ہے۔” وہ بے اختیار کہتی گئی۔ ”شاید زیادہ ملاقات کا موقع ملتا تو…میں انہیں پسند کرتی اور شاید وہ بھی…مگر جب اتنے عرصے ملاقات کا موقع نہ ملے تو پھر یہ چیزیں اتنی اہم نہیں رہتیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی اور اسے لگا کہ شاید وہ ہو بھی گئی تھیں۔
”ہاں میں بھی سوچ رہی تھی کہ آخر تم عمر کو ناپسند کیوں کرو گی…وہ تو اتنا۔۔۔”
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتیں فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ جنید کی امی چونک کر فون کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ علیزہ نے گفتگو کا سلسلہ اس طرح ٹوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
”میں دیکھوں کس کا فون ہے۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”میں فری کے پاس جا رہی ہوں…اپنے کمرے میں ہی ہے نا؟”
علیزہ نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی فون پر بات کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اس کے پاس آئیں اور موضوع گفتگو پھر عمر جہانگیر ہی ہو۔
”ہاں اپنے کمرے میں ہی ہے۔” انہوں نے کہا۔ ”ٹھیک ہے میں اس کے پاس جا رہی ہوں۔” علیزہ لاؤنج سے نکل گئی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!