وہ تقریباً ایک گھنٹہ وہاں رہی اور اس کے بعد واپس گھر آگئی مگر گھر آکر اسے پھر کوفت ہوئی تھی، عمر کی گاڑی اب وہاں کھڑی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ عمر یہاں موجود ہو گا ورنہ وہ ابھی کچھ اور وقت وہاں گزارتی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے نانو اور عمر کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس نے دوسری نظر ان پر نہیں ڈالی سلام دعا کیے بغیر وہ سیدھی وہاں سے گزرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی اسے توقع تھی عمر کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہاں سے چلا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔
وہ ابھی کپڑے بدل کر باتھ روم سے نکلی تھی جب اس نے دروازے پر دستک کی آواز سنی۔
”دروازہ کھلا ہے” اس نے اپنے بالوں کو ہیئر بینڈ میں جکڑتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا اور عمر اندر آگیا۔ وہ کچھ دیر شاکڈسی اسے دیکھتی رہی ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہونے والے جھگڑے کے بعد اسے توقع نہیں تھی کہ وہ ابھی فوراً ہی دوبارہ اس طرح اس کے سامنے آ جائے گا۔
”تم مجھے دیکھ کر حیران ہو رہی ہو؟” وہ جیسے اس کے تاثرات بھانپ گیا تھا۔
”نہیں میں نے تمہارے بارے میں حیران ہونا چھوڑ دیا ہے۔ میں تم سے کبھی بھی کسی بھی چیز کی توقع کر سکتی ہوں۔” علیزہ نے ترشی سے کہا۔
وہ دروازے سے چند قدم آگے بڑھ آیا۔ ”میں بیٹھ سکتا ہوں؟”
”ہاں بالکل جہاں چاہو…بیٹھو…اس گھر پر تمہارا حق ہے یہاں میں تمہیں اس طرح Treat نہیں کر سکتی جیسے میں نے جنید کے گھر پر کیا تھا اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔ پھر اس طرح فارمل کیوں ہو رہے ہوں۔ یوں جیسے تم بڑے مہذب ہو۔ جیسے ہر کام تم مجھ سے پوچھ کر کرتے ہو۔” وہ تلخی سے ہنس کر بولی۔
”ہم کچھ دیر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟” وہ کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر بولا۔
”نہیں میں اب تمہارے ساتھ کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میں وجہ جان سکتا ہوں؟”
”نہیں یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”مجھے ضرورت ہے۔” عمر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم کسی دن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ دیکھنا۔ پھر تمہیں وجہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔”
”میں آج یہاں آئینے میں اپنا چہرہ ہی دیکھنے آیا ہوں۔ تم مجھے میرا…بقول تمہارے…اصلی چہرہ دکھاؤ۔”
”یہاں تم کیا ثابت کرنے آئے ہو؟”
”مجھے تم پر کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے علیزہ !”
”Then just get out of my room” (تب آپ میرے کمرے سے تشریف لے جائیں) ”نہیں فی الحال میں یہاں سے جاؤں گا نہیں۔” عمر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تم سے صرف تمہارے غصے اور ناراضی کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ تمہیں مجھ سے آخر کیا شکایت ہے؟” وہ کمرے کے وسط میں کھڑا کہتا گیا۔ ”آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تم مجھ کو اس طرح ناپسند کرنے لگی ہو؟”
”ناپسند؟عمر…! میں تمہاری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی، مجھے نفرت ہے تم سے۔” وہ بلند آواز میں بولی۔
”اسی لیے آیا ہوں یہاں پر ، کیوں نفرت ہے، یہی جاننا چاہتا ہوں۔” وہ اسی طرح پرسکون انداز میں کہتا رہا۔
”میں یہ سب کچھ جنید کے گھر بھی پوچھ سکتا تھا مگر میں وہاں کوئی سین کری ایٹ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر جو کچھ تم نے وہاں مجھ سے کہا مجھے یقین نہیں آیا۔ میں تمہارا گھر برباد کرنا چاہوں گا۔ میں؟” عمر نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے سکون ملتا ہے تمہیں تکلیف پہنچا کر۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ علیزہ کہ یہ سب تم نے میرے بارے میں کہا ہے۔”