عمر نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں…وضاحتیں دینا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے بپھر کر کہا۔
”میں تم سے کوئی وضاحت مانگنے نہیں آیا۔ صرف پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں مجھ سے کیا شکایت ہے۔ تم مجھے بتاؤ تاکہ میں ایکسکیوز کر سکوں۔”
علیزہ کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔ ”تمہیں پتا ہے عمر! تم کس قدر جھوٹے، منافق اور کمینے انسان ہو۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”تم میں ذرہ برابر بھی انسانیت نہیں ہے۔” وہ بلند اور تیز آواز میں کہتی رہی۔
”اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم کس حد تک گر سکتے ہو میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لوگوں کے پیچھے بھکاریوں کی طرح پھر رہے ہو تم اپنے آپ کو بچانے کے لیے۔”
وہ اس وقت آپے سے بالکل باہر ہو رہی تھی۔ اسے بالکل پتا نہیں تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔
”میں بیٹھ جاتا ہوں…تم آرام سے جتنی گالیاں دینا چاہتی ہو…دو…جتنا برا بھلا کہنا چاہتی ہو، کہو” وہ صوفے کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کو اس کے پرسکون لہجے نے اور مشتعل کیا۔
”تم ایک ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے۔ جس دن یہ اتر جائے گا اس دن تم بھی اسی طرح کسی پولیس مقابلے میں مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاعلیزہ! تمہیں اتنا غصہ بھی آ سکتا ہے اور تم اس طرح چلا سکتی ہو۔”
”تم میں اور انکل جہانگیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تم ان سے زیادہ سفاک اور بے رحم ہو۔ وہ کم از کم اپنوں پر ترس تو کھاتے ہیں اور تم…تم وہ آدمی ہو جسے رشتوں کا کوئی پاس سرے سے ہے ہی نہیں۔” وہ انگلی اٹھا کر اس سے کہہ رہی تھی۔ ”نہ تم اچھے بیٹے ہو نہ اچھے بھائی ۔ You are a total failure اور ایسا پتا ہے کیوں ہے کیونکہ تم اچھے انسان ہی نہیں ہو۔”
عمر نے اسے نہیں روکا بس وہ کچھ عجیب سے انداز میں مسکرا دیا۔
”آج اگر صالحہ پرویز کی جگہ میں ہوتی اور تمہیں مجھ سے کوئی خطرہ ہوتا تو تم مجھ پر بھی اسی طرح فائرنگ کرواتے۔ زیادہ خطرہ ہوتا تو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔”
عمر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا۔
”سیلف ریسپکٹ نام کی کوئی چیز تمہارے اندر ہے ہی نہیں…مجھ پر اثر انداز ہونے کے لیے تم نے جنید کے ساتھ رابطے بڑھانا شروع کر دیئے۔ اس کے گھر آنے جانے لگے، اس سے ملنے لگے تاکہ اس کے ذریعے مجھے مجبور کرو کہ میں صالحہ پرویز پر آرٹیکلز نہ لکھنے کے لیے دباؤ ڈالوں اور میں سوچتی رہی کہ جنید شاید عباس کے کہنے پر مجھے یہ سب کہہ رہا ہے مگر مجھے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ اتنا صرف تم ہی کر سکتے ہو۔ کوئی دوسرا نہیں۔ عباس کم از کم اس طرح دوسروں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ جس طرح تم ٹیک رہے ہو۔ جس راستے سے بھی تمہیں اپنا بچاؤ نظر آرہا ہے تم اس طرف دوڑ رہے ہو۔ یہ دیکھے بغیر کہ دوڑتے ہوئے تم کس پر سے گزر رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے عمر!”
عمر کا چہرہ اب بھی اسی طرح بے تاثر تھا۔
”مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں، میں تمہیں کیا سمجھتی رہی اور تم…تم…آستین کے سانپ ہو۔ کم از کم میرے لیے تو آستین کے سانپ ہی ثابت ہوئے ہو اور اب تم ایک بار پھر یہاں میرے سامنے آگئے ہو۔ اپنی صفائیاں دینے۔”
اس کی آواز غصے سے لرز رہی تھی۔ وہ یکدم بات کرتے کرتے رک گئی۔
”جس طرح تم نے میرے اعتماد کا مذاق اڑایا ہے اسی طرح۔۔۔”
عمر اب سگریٹ سلگا رہا تھا۔ علیزہ کو اس کی خاموشی اور بے نیازی پر اور غصہ آیا، تیزی سے اس کے پاس جا کر اس نے اس کے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ اور ہاتھ میں پکڑا ہوا لائٹر کھینچ لیا۔ عمر نے مزاحمت نہیں کی۔ علیزہ نے کونے میں پڑے ہوئے ڈسٹ بن میں وہ دونوں چیزیں اچھال دیں۔
”یہاں تم سگریٹ پینے کے لیے نہیں آئے ہو۔” اس نے ترشی سے عمر سے کہا۔