”ہاں میں بھول گیا تھا۔ یہاں تو میں سگریٹ پینے نہیں…گالیاں کھانے آیا ہوں۔” وہ مسکرایا۔
”تم…تم کسی سے گالیاں کھا سکتے ہو۔ اپنی مظلومیت کا ڈرامہ کیوں کر رہے ہوں؟” علیزہ کو اس کے جملے پر اور غصہ آیا۔
”میں مظلومیت کا کوئی ڈرامہ نہیں کر رہا ہوں۔” عمر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔” مجھے کسی ڈرامے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”ہاں یہی تو میں تمہیں کہہ رہی ہوں کہ خود کو اتنا مظلوم اور بے بس ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
وہ غرائی، عمر سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”جھوٹ…جھوٹ…جھوٹ…فریب، دھوکا عمر جہانگیر تم اس کے سوا اور کیا ہو؟” اس کا سکون اس وقت علیزہ کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر رہا تھا۔
”میرے دل میں تمہارے لیے ذرہ برابر بھی عزت موجود نہیں ہے…ذرہ برابر بھی…شرم آتی ہے مجھے۔ جب لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ تم میرے کزن ہو۔ تمہارے حوالے سے تعارف پر تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ اسی طرح کی تکلیف جتنی دس سال پہلے تمہیں اپنے باپ کے تعارف پر ہوتی تھی۔”
عمر کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔
”یاد ہے نا کیا کہا کرتے تھے تم؟” وہ غرائی۔
”یاد ہے۔” عمر نے سرد آواز میں کہا۔
”ہاں یاد کیوں نہیں ہوگا تمہیں…وہی سب کچھ سامنے رکھ کر تو سٹینڈرڈ اور پیرامیٹرز سیٹ کیے ہوں گے تم نے اپنے لیے۔” وہ تلخی سے بولی۔ ”مجھے جھوٹ کا یہ معیار حاصل کرنا ہے۔ انسانیت کے اس نچلے درجے تک گرنا ہے۔ سفاکی کی اس سیڑھی پر کھڑا ہونا ہے۔ لوگوں کی زندگی کی تباہی کی یہ سٹیج حاصل کرنی ہے۔ خود غرضی اور بے ضمیری کی اس اونچی منزل پر جا کھڑا ہونا ہے۔”
اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، عمر ہونٹ بھینچے اسے خاموشی سے دیکھتا جا رہا تھا۔
”سارے سٹینڈرڈ تو تم نے وہیں سے سیٹ کیے ہیں۔ اپنے باپ کی ریپوٹیشن کو روتے تھے تم ، اپنی ریپوٹیشن کے بارے میں جا کر پوچھو کسی سے۔ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔”
عمر نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں۔ وہ بالکل ساکت تھا۔ علیزہ کو اس پر ترس نہیں آیا۔ اس نے زندگی میں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کرے گی۔ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کر سکتی ہے۔
کمرے کے وسط میں کھڑے اب وہ سرخ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اسے گھور رہی تھی۔
”کوئی جواب ہے تمہارے پاس میری باتوں کا یا نہیں…؟” وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بلند آواز میں چلائی۔
”اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا کمرے کا دروازہ کھول کر نانو اندر آگئیں۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں علیزہ…! تم دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہو۔ باہر تک آواز آرہی ہے تمہاری۔”
انہوں نے ان دونوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد کہا۔ اس سے پہلے کہ علیزہ کوئی جواب دیتی عمر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور نانو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نرمی سے انہیں باہر کی جانب دھکیلا۔
”نہیں ہم میں کوئی جھگڑا نہیں ہو رہا، ہم کچھ باتیں ڈسکس کر رہے ہیں ۔ گرینی پلیز! آپ باہر چلی جائیں، ہم ابھی بات ختم کرکے باہر آ جائیں گے۔”
نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی ”مگر عمر۔۔۔”
”پلیز گرینی! میں ریکویسٹ کرتا ہوں۔”
عمر نے انہیں اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی، وہ بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
عمر ایک بار پھر صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میرے پاس ہر بات کا جواب ہے مگر بہتر ہے کہ پہلے تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو کہہ لو…میں بعد میں بات کروں گا۔”
”مجھے اور کچھ نہیں کہنا، میں کہہ چکی ہوں سب کچھ۔” وہ غرائی۔ وہ صوفہ پر کچھ آگے کو جھک گیا۔
”ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے، جھوٹ کی بات کر لیتے ہیں۔ میں نے تم سے کیا جھوٹ بولا ہے۔”
”میں تمہارے کون کون سے اور کتنے جھوٹ گنواؤں۔”
”جتنے یاد ہیں اتنے گنوا دو۔”
”اس گھر پر جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا؟ مجھ پر اور نانو پر…مجھے وہ لوگ اغوا کرنا چاہتے تھے ہے نا…یہ سب تو سچ ہی ہوگا۔ اب بولو…اب کیوں نہیں بولتے، جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا نا اس گھر پر؟”
”نہیں۔۔۔” عمر کے چہرے پر اب بھی سکون تھا، علیزہ کو اس کے جواب نے مزید مشتعل کیا۔
”جسٹس نیاز نے نہیں کروایا، بڑی حیرت کی بات ہے۔ تم نے تو مجھ سے یہی کہا تھا کہ جسٹس نیاز نے حملہ کروایا ہے کہا تھانا؟”
”ہاں کہا تھا۔”
”اور یہ جھوٹ نہیں ہے۔ کسی بھی طرح اسے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا ۔”
”یہ جھوٹ تھا مگر مجھے اس جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”تمہیں شرمندگی ہو بھی نہیں سکتی۔ شرمندہ ہونے کے لیے باضمیر ہونا ضروری ہے اور یہ چیز تو تمہارے پاس کبھی تھی ہی نہیں۔” عمر نے اس کے طنزیہ جملے کو نظر انداز کر دیا۔
”جسٹس نیاز والے معاملے میں تم سے جھوٹ بولا گیا ، مگر میں اکیلا نہیں تھا اس جھوٹ میں ہر ایک نے تم سے جھوٹ بولا کیونکہ تم کسی کی بات ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔”