”ہر ایک سے تمہاری مراد عباس اور تم ہو؟”
”گرینی بھی۔” علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”اس حملے کے بارے میں وہ پہلے سے جانتی تھیں؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”ہاں۔۔۔”
”چوکیدار کا زخمی ہونا بھی ایک ڈرامہ ہوگا۔ وہ بھی کہیں چھٹیاں گزار کر آگیا ہوگا۔”
عمر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”میرے rape کا جھوٹ کس نے گھڑا، یقیناً تم نے۔”
”نہیں یہ میں نے نہیں کہا ۔ مجھے اس کے بارے میں بعد میں عباس سے پتا چلا تھا اور میں نے اس پر عباس۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر بات کاٹ دی۔
”تم…کو بعد میں پتا چلا…تم کو…یہ بھی ایک اور جھوٹ ہوگا۔ ہر معاملے میں تم لوگ اکٹھے ہوتے ہو۔ ہر بات کی خبر رکھتے ہو اور تمہیں اس کے بارے میں بعد میں پتا چلا میں یقین نہیں کر سکتی۔”
”مت کرو…مگر یہ سچ ہے کہ مجھے اس بات کے بارے میں بعد میں پتا چلا۔ اگر پہلے پتا چلتا تو میں کبھی بھی انہیں ایسی بات کہنے نہ دیتا۔ میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں۔” عمر اب صوفہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔
”میری جگہ اگر تمہاری اپنی بہن ہوتی…یا…یا جو ڈتھ ہوتی تو اس کے بارے میں ایسی بات برداشت کر سکتے تھے تم…مجھ سے تو خیر تمہارا رشتہ ہی کوئی نہیں ہے۔”
”تم میرے لیے کسی بھی شخص اور کسی بھی رشتہ سے زیادہ اہم ہو۔”
”نہیں ، میں نہیں ہوں…ایسی باتوں سے اب بے وقوف نہیں بن سکتی عمر جہانگیر۔ اب میچور ہو گئی ہوں میں” اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جہاں تک صالحہ کا تعلق ہے تو میں نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ ایسا کام کوئی بے وقوف ہی کر سکتا ہے اور میں کم از کم بے وقوف تو نہیں ہوں۔” اس نے قدرے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں اس وقت آفس میں تھی جب تم نے اسے فون کیا تھا۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”اور میں نے خود فون پر سنا تھا…تم اسے دھمکا رہے تھے۔”
”دن میں، میں اگر دس لوگوں کو دھمکاؤں گا تو کیا دس لوگوں پر حملہ کرواؤں گا۔” عمر نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میں دوسرے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتی مگر صالحہ کا تمہارے علاوہ اور کوئی دشمن نہیں ہے۔” علیزہ نے دو بدو کہا۔
”صالحہ خود اپنی سب سے بڑی دشمن ہے۔”
”کیوں وہ تمہارے بارے میں سچ لکھتی ہے اس لیے۔”
”سچ…کیا سچ؟” وہ تلخی سے ہنسا۔
”مجرموں کے بھی انسانی حقوق ہوتے ہیں۔” اس نے صالحہ پرویز کے آرٹیکل کا عنوان کچھ تنفر سے پڑھا۔
”ہاں مجرموں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں، وہ کتے بلیاں نہیں ہوتے کہ کہیں بھی کیسے بھی پکڑ کر انہیں مار دو۔ اگر تم لوگوں نے یہی سب کچھ کرنا ہے تو عدالتیں بند کر دو۔ لوگوں کو پکڑو کھڑے کھڑے شوٹ کرو اور بس… یہ دیکھو بھی مت کہ کس نے کیا کیا ہے؟”
”جن مجرموں کو پکڑ کر ہم پولیس مقابلوں میں مارتے ہیں ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے کیونکہ وہ انسان نہیں ہوتے۔” عمر نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
”اس طرح کے مجرم جن چاروں کو۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ان چاروں کو چھوڑ دو۔ وہ ایک علیحدہ کیس تھا۔ باقیوں کی بات کرو، ہر بار بے گناہوں کو نہیں مارا جاتا۔ چودہ چودہ قتل کیے ہوتے ہیں ان لوگوں نے جنہیں پولیس مقابلوں میں مارا جاتا ہے۔” وہ اب تیز آواز میں کہہ رہا تھا”اور تم لوگ ان کے حقوق کی بات کرتے ہو۔”
”پولیس کا کام مجرموں کو پکڑنا ہوتا ہے، انہیں سزائیں دینا نہیں۔ کورٹس ہیں اس کام کے لیے۔” وہ اس کے لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔