Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”کورٹس…کون سے کورٹس۔۔۔” وہ تنفر سے ہنسا ”کورٹس کہتے ہیں ثبوت لائیں، گواہ پیش کریں، چودہ افراد کو قتل کر دینے والے شخص کے خلاف کون گواہی دینے کے لیے کھڑا ہوگا جس ملک میں ریوالور کی گولی بلیک میں سات روپے کی اور ایک لائف سیونگ ٹیبلٹ سو روپے میں ملتی ہو، وہاں کون اٹھ کر یہ کہے گا کہ ہاں یہ وہ آدمی ہے جس کو میں نے سڑک پر چار لوگوں کو قتل کرتے دیکھا۔”
وہ تنفر سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”جہاں لوگ بدلہ لینے کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اپنی پیشی بھگتانے کورٹ میں آئے تو اسے وہاں مارا جائے، کیونکہ کورٹ میں مارنا سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ وہاں تم Rule of law اور کورٹس کی Supremacy (برتری ) کی بات کرتی ہو۔” وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”جہاں Lowercourts کے سینکڑوں ججز میں سے نہ بکنے والے ججز کو آدمی انگلی پر گن سکتا ہو اور جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے قابلیت کے بجائے سیاسی بیک گراؤنڈ اور اپروچ معیار ہو۔ جہاں ایک وزیراعظم یہ کہے کہ اس کی خواہش تھی کہ اس کی پارٹی کے ایک وفادار جیالے کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائے اور دوسرے وزیراعظم کی پارٹی کے لوگ سپریم کورٹ پر حملہ کر دیں اور سپریم کورٹ توہین عدالت کا فیصلہ کرنے میں تین سال لگا دے وہاں کورٹس مجرموں کو سزا دلائیں گے۔”



وہ ایک بار پھر ہنسا۔
”جن لوگوں کو پکڑنے میں پولیس کے کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور لاکھوں روپیہ خرچ ہو جاتا ہے…انہیں پکڑنے کے بعد ان کے خلاف ایک گواہ نہیں ملتا۔” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
”لوگ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کے قتل پر گواہ نہیں بنتے۔ جج پوچھتا ہے کوئی گواہ ہے۔ وکیل استغاثہ کہتا ہے نہیں۔ وکیل صفائی کہتا ہے ضمانت پر رہا کر دیں جناب! میرے موکل کو پولیس نے جان بوجھ کر گرفتار کیا ہے۔ جج پانچ ہزار کے ضمانت کے مچلکے پر اسے رہا کر دیتا ہے۔ ہمارا پورا ڈیپارٹمنٹ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ یہ ہے اس ملک کا نظام عدل۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اور عدالت کو چھوڑو ان سے پہلے ہی بڑے بڑے سیاست دانوں کی سفارش آنا شروع ہو جاتی ہیں، ان کے لیے کیونکہ یہ لوگ ان کے پالے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک قتل یہ اپنے لیے کرتے ہیں تو دس ان کے لیے۔ وزیراعلیٰ یا گورنر فون کرکے کہے کہ فلاں آدمی جو آپ نے پکڑا ہے اسے چھوڑ دیں تو ہم اسے اس کے بارے میں مقدمات کی تفصیل کیسے بتا سکتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایسے آدمیوں کو پکڑنے کے بعد مار دیا جائے، اس سے پہلے کہ ان کے لیے کوئی سفارش آئے یا عدالت انہیں رہا کرے اور وہ دوبارہ پولیس کا ناک میں دم کریں اور عمر جہانگیر ایسا کرنے والا واحد آدمی نہیں ہے کسی ایک ایسے ایس پی کا نام بتا دو جس کے ضلع میں ایسے جھوٹے پولیس مقابلے نہیں ہوتے۔ ہم مجبور ہیں یہ سب کرنے کے لیے۔ ایک پولیس مقابلے کے بعد لاء اینڈ آرڈر بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کم از کم کچھ عرصے کے لیے۔ کبھی آج تک کسی ایک ایس پی کو سزا ملی ہے اس کے ضلعوں میں ہونے والے کسی ایک بھی پولیس مقابلے کے لیے۔” اس نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”نہیں…اور نہ ہی آئندہ کبھی ملے گی کیونکہ وہ جو اوپر بیٹھے ہوتے ہیں نا…آئی جی…اور چیف سیکرٹری انہیں بھی سب پتا ہوتا ہے کہ یہ پولیس مقابلے کیوں ہوتے ہیں اور ہم یہ کرنے پر کیوں مجبور ہیں پھر صرف عمر جہانگیر کو اس طرح تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ صرف مجھ پر الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں۔”
اس کی آواز میں اب غصہ تھا۔
”کرپشن…؟ کون کرپشن نہیں کرتا، ہاں میں نے اور رضی محمود نے وہ زمین بیچ دی تھی تو پھر کیا ہوا…یہاں سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ جرنلسٹس کو موقع ملے تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ کیا وہ لفافے نہیں لیتے سیاست دانوں سے ، کسی جرنلسٹ کا نام بتاؤ میں تمہیں اس کا کچا چٹھا بتا دیتا ہوں۔



کس کا کتنا ریٹ ہے۔ کون کس وزیر کے ساتھ دورے پر جانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیل رہا ہے۔ کون کس سے پلاٹ الاٹ کروا رہا ہے اور میں نہ بھی کہوں تم جرنلسٹس کے کالم پڑھ لو…تمہیں پتا چل جائے گا کس کے منہ میں کس کی زبان ہے اور کس کی قیمت کتنی ہے۔ پھر اگر ان جیسے لوگ ہمیں گریبان سے پکڑنے کی کوشش کریں تو۔۔۔”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ہنسا۔
”پھر بھی میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے صالحہ پر فائرنگ نہیں کروائی۔ وہ میرے لیے اتنا خطرہ نہیں تھی۔ تمہاری دوست ہوتی یا نہ ہوتی مجھے اس پر فائرنگ کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں ایسا کام کیوں کرواؤں گا کہ سیدھا شک مجھ پر جائے۔” اس بار اس کی آواز نرم تھی۔
”پھر تمہارے علاوہ اور کون کر سکتا ہے یہ سب کچھ؟”
”وہ خود کروا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ پری پلانڈ ہو سکتا ہے۔ میرا کوئی دشمن کروا سکتا ہے۔” عمر نے لاپرواہی سے کہا۔
”وہ خود اپنے آپ پر فائرنگ کروائے گی؟” علیزہ نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں کیوں نہیں اس میں کون سے پہاڑ سر کرنے پڑتے ہیں۔ کرائے کا کوئی آدمی چاہیے ہدایات کے ساتھ…اور بس…اور وہ تو ہے بھی جسٹس نیاز کے خاندان سے۔”
علیزہ نے اسے غور سے دیکھا۔
”اور جہاں تک خود کو بچانے کے لیے بھکاریوں کی طرح ہر ایک کے آگے پیچھے پھرنے کا تعلق ہے تو میں ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا۔” وہ ہنسا ”یہ معطلی میرے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی ہے…کیسے ، یہ تمہیں اگلے چند ہفتوں میں پتا چل جائے گا۔ جہاں تک انکوائری کا تعلق ہے انکوائری کمیٹی میں تین لوگ ہیں۔” وہ اب جیسے خود اپنی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ایک پاپا کے بیچ میٹ ہیں انکل اسحاق دوسرے اے ایچ قریشی ہیں۔ ان کا بیٹا شیراز میرا بیچ میٹ ہے۔ تیسرے فاروق ذوالفقار ہیں۔ ان کے ساتھ کل لاہور جم خانہ میں ٹینس کی پریکٹس کی تھی میں نے۔ میرے بیک ہینڈ سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ان کے فور ہینڈ سے میں۔” اس نے ٹینس کے دو شاٹس کا نام لیتے ہوئے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!