”سروس دونوں کی اچھی نہیں تھی۔ کل دو گھنٹے کے لیے مزید کھیلیں گے شاید بہتر ہو جائے۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
”اور تم سمجھ رہی ہو کہ میں لوگوں کے پیچھے پھر رہا ہوں کہ مجھے بچا لیں…میں یہاں بس چند ہفتے کی چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔” وہ ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔
”جنید…یا…تم…یا صالحہ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہو۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ”اور تمہیں جنید کے ذریعے میں کیوں پریشرائز کراؤں گا۔”
علیزہ کو یکدم تھکن محسوس ہونے لگی۔ واپس پلٹ کر وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح ہر حل، ہر جواب اپنی مٹھی میں لیے پھر رہا تھا، وہ باتوں میں دلیلوں میں اس سے کبھی نہیں جیتی تھی۔ وہ آج بھی اس سے نہیں جیت سکی تھی۔
”بس ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ میں تمہاری زندگی کیسے برباد کر رہا ہوں؟” اس نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اور تمہارا یہی جملہ مجھے وہاں سے یہاں لایا ہے۔ کسی اور شخص کے کسی جملے سے مجھے اتنی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جتنی تمہاری اس بات سے ہوئی ہے۔ میں تمہیں خوش نہیں دیکھ سکتا…میں…؟ علیزہ! میں تمہیں خوش دیکھنا نہیں چاہوں گا…؟ میں چاہوں گا کہ تمہاری زندگی برباد ہو…تمہیں پتا ہے، تم نے مجھ سے کیا کہا ہے؟”
علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تمہاری وجہ سے جنید میرے ساتھ جھگڑا کر رہا ہے۔ تمہارے لیے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔ جب تک تم سے اس کا میل جول نہیں تھا ہم لوگوں میں کوئی تلخی نہیں تھی مگر اب جب تم اس سے ملنے لگے ہو…تو…تمہارے کہنے پر وہ۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے کہنے پر وہ کچھ نہیں کر رہا۔ وہ میرے کہنے پر کچھ کر بھی نہیں سکتا۔” عمر نے سختی سے کہا ۔ ”وہ کوئی ننھا بچہ نہیں ہے اور پھر میں تم لوگوں کے تعلقات کیوں خراب کروانا چاہوں گا۔” مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟”
”Why don’t you just get of our life” (تم ہماری زندگی سے نکل کیوں نہیں جاتے) وہ یکدم چلائی۔
عمر بات کرتے کرتے رک گیا۔ ”میں تمہاری زندگی سے پہلے ہی نکل چکا ہوں۔”
”نہیں تم نہیں نکلے ہو، اگر نکل گئے ہو تو پھر جنید کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔”
”اگر جنید سے ملنا چھوڑ دوں تو کیا مجھ سے تمہاری ناراضی ختم ہو جائے گی؟” عمر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”میری ناراضی کی پروا مت کرو عمر! جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو، اس کے بعد کیا تمہیں یہ سوال زیب دیتا ہے؟”
”ہم دونوں بہت اچھے دوست رہ سکتے ہیں علیزہ…! ہم کبھی بہت اچھے دوست تھے۔۔۔” اس نے اس بار قدرے مدھم آواز میں کہا۔
”نہیں ہم دونوں کبھی بھی دوست نہیں تھے۔ ہم دونوں آئندہ بھی کبھی دوست نہیں رہ سکتے۔” علیزہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”تم مجھے اپنے اور جنید کے درمیان کبھی نہیں پاؤ گی۔ میں اس سے دوبارہ نہیں ملوں گا۔ کیا اس کے بعد تم میرے لیے اپنا دل صاف کر سکتی ہو؟”
”نہیں۔۔۔”
عمر کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا، وہ کچھ دیر کچھ بھی کہے بغیر اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
”میرے لیے تم ایک بہت خاص دوست ہو۔ تم مجھے کیا سمجھتی ہو کیا نہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا مگر کم از کم میرے لیے تم ہمیشہ ہی خاص رہو گی اور اگر کبھی پوری دنیا بھی تمہارے خلاف ہو جائے تو تم یہ یاد رکھنا، عمر جہانگیر ہمیشہ تمہاری طرف کھڑا رہے گا۔ چاہے تم غلط ہو یا صحیح ہو، میں ہمیشہ تمہیں سپورٹ کروں گا علیزہ! میں وہ آخری شخص بھی نہیں ہوں گا جو کبھی تمہیں تباہ کرنا چاہے گا۔ تم زندگی تباہ کرنے کی بات کرتی ہو، میں تو تم پر ایک خراش برداشت نہیں کر سکتا۔” علیزہ اس کے علاوہ کمرے کی ہر چیز کو دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری یہ پینٹنگ لے جاؤں۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ علیزہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ وہ اب دیوار پر لگی ہوئی ایک پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا، علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کچھ کہے بغیر دیوار کی طرف گئی اور اس پینٹنگ کو اتار دیا۔ عمر سے نظریں ملائے بغیر اس نے وہ پینٹنگ اس کی طرف بڑھا دی۔
”میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا۔” اس نے عمر کو کہتے سنا۔
”مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” اس کی بات کے جواب میں وہ اس کی بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ علیزہ نے اسے اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کیس برآمد کرتے اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے دیکھا۔
”یہ تمہارے لیے ہے، میں تمہاری برتھ ڈے پر دینا چاہتا تھا مگر نہیں دے سکا۔”
وہ اب دونوں ہاتھوں میں اس پینٹنگ کو پکڑ کر دیکھ رہا تھا۔
”او کے میں چلتا ہوں، اب۔۔۔”
وہ یکدم واپس مڑ گیا۔ علیزہ نے اسے کمرے سے باہر جاتے دیکھا کچھ دیر تک وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی پھر وہ اٹھ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آگئی۔ کیس آہستگی سے اٹھا کر اس نے اسے کھول دیا۔ اندر سونے اور ہیروں سے مرصع ایک خوبصورت بریسلیٹ تھا۔ وہ ہونٹ بھینچے اس تحفے کو دیکھتی رہی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی بھی اسے سونے کی کوئی چیز نہیں دی تھی۔ پھر اب…جب…اس نے بہت آہستگی سے ایک بار اس بریسلیٹ کو چھوا اور کیس کو بند کر دیا۔ باہر عمر کی گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آرہی تھی، وہ کھڑکی کی طرف بڑھ آئی۔ بند کھڑکیوں سے اس نے عمر کی گاڑی کو گیٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔
وہ اس شخص کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ وہ اس شخص کو کبھی سمجھنا چاہتی بھی نہیں تھی۔
٭٭٭