صحافتی حلقوں میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں افواہیں زوروں پر تھیں۔ نہ صرف ملکی پریس بلکہ بین الاقوامی پریس بھی اس بارے میں اندازے پیش کر رہا تھا۔ علیزہ کے آفس میں بھی روز اسی بارے میں گفتگو ہوتی رہتی۔ یہ خبریں اس وقت اور زور پکڑ گئیں جب فوج کے ایک کور کمانڈر نے جو ایک حکومتی عہدے دار کے رشتے دار تھے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اگلے چند دنوں میں آرمی چیف نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ پریس کی قیاس آرائیاں تھیں کہ انہوں نے حکومتی حلقوں کو آرمی کے پلان آف ایکشن کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی تھی۔
”حکومت اب بس کسی وقت بھی جا سکتی ہے کیونکہ تمام تیاریاں پوری ہو چکی ہیں۔ بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام جن کی اس حکومت میں رشتہ داریاں ہیں ان میں سے اکثر طویل رخصت پر ملک سے باہر جا چکے ہیں یا جارہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔ وزیر چاہے جتنے بھی بیان کیوں نہ دیتے پھریں کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کی بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔”
اس دن بھی لنچ بریک میں یہی ڈسکشن ہو رہی تھی اور اسد ہمایوں بڑے زور و شور سے اپنا تبصرہ کر رہا تھا۔ علیزہ لنچ کرتے ہوئے وہاں ہونے والی گفتگو سننے میں مصروف تھی وہ خود ایسی ڈسکشنز میں حصہ نہیں لیتی تھی۔ اس کی واحد سرگرمی ہر ایک کی رائے کو غور سے سننا ہوتا تھا۔
”خاص طور پر وہ بیورو کریٹس جن کے رشتہ دار آرمی میں ہیں، انہیں تو پہلے ٹپس دی جا رہی ہیں۔” مقصود جعفر نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا۔ ”ایک ہوتی ہے ملٹری بیورو کریسی ، اور دوسری ہوتی ہے سول بیورو کریسی۔ پاکستان میں دونوں باری باری حکومت کرتے ہیں۔ مل کر کھاتے ہیں مل کر آتے ہیں۔”
اسد ہمایوں کی بات میں مقصود جعفر نے ٹکڑا لگایا۔
”مگر مل کر جاتے نہیں ہیں۔”
”جائیں گے کیوں، ابھی اس ملک کی رگوں میں خاصا خون ہے۔ اگلے کئی سال چوسا جا سکتا ہے۔” اس بار صالحہ نے تبصرہ کیا تھا۔
”ہر چھ ماہ بعد فوج کے آنے کی افواہ گردش کرنے لگتی ہے۔ میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہم کب تک افواہوں پر اس طرح ڈسکشن کرتے رہیں گے۔” اس بار عصمت نے کہا تھا۔
”جرنلسٹس کا کام ہی افواہوں کو ڈسکس کرنا ہوتا ہے۔ آپ کو ہماری باتوں پر یقین آئے یا نہ آئے مگر اس بار آپ میری خبروں کی صداقت پریقین لے آئیں گی۔”
اسد ہمایوں نے عصمت کی بات کے جواب میں کہا تھا، عصمت نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چائے پینے پر اکتفا کیا تھا مگر علیزہ سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کیا چند دن پہلے عمر جہانگیر اسی تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جس کے بعد وہ ایک بہتر پوزیشن میں آ جائے گا۔ وہ سوچ رہی تھی۔
”کیا اس کے خلاف ہونے والی انکوائری۔ کیا اس کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ ہے اور وہ آخر اس کانفرنس سے کیا ایڈوانٹیج حاصل کر سکتا ہے اور فوج اگر حکومت میں آ بھی گئی تو عمر جہانگیر کو اس سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔”
اسے بہت سارے سوال پریشان کر رہے تھے۔
اس کے سارے سوالوں کے جواب اسے اگلے ہفتے مل گئے تھے ، ملک میں فوج نے حکومت سنبھال لی تھی اور حکومت سنبھالنے کے بعد جو مختلف نوٹیفکیشنز جاری کیے گئے تھے ان میں سے ایک کچھ سرکاری افسروں کی بحالی کا بھی تھا اور ان سرکاری افسروں میں عمر جہانگیر بھی شامل تھا۔ اسے نہ صرف بحال کر دیا گیا تھا بلکہ اسی شہر میں دوبارہ تعینات کر دیا گیا تھا جہاں وہ پہلے پوسٹڈ تھا۔ اس کی انکوائری کا کیا بنا؟ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ حکومت ویسے بھی اتنے ضروری کاموں میں الجھی ہوئی تھی کہ عمر جہانگیر جیسے ایک معمولی افسر کے کیس کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہو سکتا تھا اور پریس خود بھی حکومت کی ہر نئی حکمت عملی کو فالو کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ عمر جہانگیر یکدم جیسے بیک گراؤنڈ میں چلا گیا تھا، اگر کسی کو وہ یاد تھا تو وہ علیزہ سکندر تھی یا صالحہ پرویز۔
اس کی بحالی کی خبر آفس میں ڈسکس ہونے پر صالحہ نے اس سے کہا تھا۔
”تمہارا کزن…واقعی بہت خوش قسمت ہے۔ ہر بار مکھن سے بال کی طرح نکل جاتا ہے یا نکال لیا جاتا ہے۔ واقعی اس کی قسمت کسی خاص قلم سے لکھی گئی ہے۔”
علیزہ جانتی تھی، یہ تعریف نہیں تھی۔
صالحہ خاصی مایوس نظر آرہی تھی۔
”اس کی پریس کانفرنس اور وہ الزامات یقیناً ایک Ploy تھا۔” صالحہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے کزن کو یقیناً پتا ہوگا کہ گورنمنٹ جانے والی ہے اور اس کے بعد حکومت میں کون آ رہا ہے، اس کو حکومت کی good books میں رہنے کے سارے طریقے آتے ہیں۔ میری طرف سے مبارکباد دینا اسے۔” صالحہ کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔
”اسی لیے تم بھی میری سپورٹ میں نکالی ہوئی اس ریلی میں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ ظاہر ہے تمہیں یہ سب کچھ پہلے ہی پتا ہوگا۔ میرے ساتھ ہمدردی کرکے تم نے میرے ساتھ ساتھ آفس کے دوسرے لوگوں کی نظروں میں بھی خاصا احترام پیدا کر لیا۔ دوسری طرف تمہیں عمر کے حوالے سے بھی کوئی خدشہ نہیں تھا۔ خاصی ”باخبر” ہو گی تم اس کے ہر ممکنہ اقدام کے بارے میں۔”
اسے صالحہ کے چہرے پر پھیلی ہوئی طنزیہ مسکراہٹ میں چھپی ہوئی ناراضی نظر آگئی لیکن اسے صالحہ کے شبہات پر افسوس ہوا۔
”تم سے یہ کہنا تو بے کار ہی ہوگا کہ مجھے کچھ علم نہیں تھا، میں بھی تمہاری طرح ہی لاعلم تھی کیونکہ تم میری بات پر کبھی یقین نہیں کرو گی۔ ” علیزہ نے اس کی طنزیہ گفتگو کے جواب میں کہا۔ ”وہ ہر کام میرے مشورے سے یا مجھ سے اجازت لے کر نہیں کرتا۔ نہ ہی مجھے باخبر رکھنا کوئی ضروری کام ہے۔”
”پھر بھی کسی نہ کسی حد تک تمہیں پتا تو ہوگا۔”
”وہ تو ہمیں یہاں نیوز پیپر کے آفس میں بھی پتا تھا کہ گورنمنٹ جانے والی ہے۔ مگر یہ کوئی authenticated (یقینی )خبر تو نہیں تھی۔”
”مگر خبر تو تھی ہمیں۔”
”جو بھی ہو تمہارا کزن۔۔۔”
علیزہ نے صالحہ کی بات کاٹ دی۔ ”میرا کزن بہت خوش قسمت ہے۔ ہر بار بچ جاتا ہے، اس بار بھی بچ گیا ہے۔ کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کر سکتیں تم، ہمارے پاس اور بھی بہت سے ٹاپک ہیں۔” علیزہ نے کچھ اکتاتے ہوئے کہا۔
”یا پھر شاید ہمیں کچھ ڈسکس کرنا ہی نہیں چاہیے۔ اگر ہر بار بات عمر جہانگیر سے شروع اور اسی پر ختم ہونی ہے تو!” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
صالحہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنا بیگ اٹھایا اور اس کے آفس سے نکل گئی۔ علیزہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔