”ایک بار بھی اس نے مجھ پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ یہ سب کچھ عمر کے کہنے پر کر رہا ہے۔ میں نے جب اس سے عباس کا ذکر کیا بھی تو اس نے مجھے نہیں بتایا کہ وہ یہ سب کچھ عباس کے نہیں خود عمر کے کہنے پر کر رہا ہے اور جنید…جنید کبھی بھی مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا مگر عمر…صرف اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے یقیناً اس نے جنید سے کہا ہوگا کہ وہ مجھے اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں نہ بتائے۔” وہ اب کڑی سے کڑی جوڑ رہی تھی۔
”تمہیں ایک مشورہ دوں علیزہ؟” شہلا نے اچانک اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم ان سب باتوں کو جانے دو۔” شہلا نے کہا۔
” کن باتوں کو جانے دوں؟”
”ان دونوں کے میل میلاپ کو۔ ” شہلا نے سنجیدگی سے کہا۔ ”تمہارے اعتراض کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم اعتراض کرو ہی نہ۔”
”کیوں اعتراض نہ کروں…عمر کو اس کے ساتھ رابطہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے، جنید کو استعمال کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ اس کو شرم آنی چاہیے۔” علیزہ نے غصے کے عالم میں اپنی گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
”اگر جنید نے تم سے صاف صاف یہ کہہ دیا کہ عمر اس سے یوں ہی ملا تھا۔ تو…؟” شہلا نے دوٹوک انداز میں کہا ”اور ہو سکتا ہے وہ دونوں آج یہاں اتفاقاً ہی مل گئے ہوں۔”
”اتفاقاً…تم ان دونوں کو دیکھو جس طرح یہ لوگ ہنس ہنس کر آپس میں باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ہی ملے ہوں۔ جنید کبھی پہلی ملاقات میں کسی کے ساتھ اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی عمر۔۔۔” اس نے شہلا کی بات کو یکسر رد کر دیا۔ ”یہ دونوں آج اتفاقاً نہیں ملے ہیں۔ میں اتنی بے وقوف تو نہیں ہوں کہ اتفاقی ملاقات کو جج نہ کر سکوں۔”
”ملنے دو…دفع کرو دونوں کو۔” شہلا نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ علیزہ نے اس کے لہجے پر غور نہیں کیا۔
”کیوں ملنے دوں ان دونوں کو…میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی سے ملے۔ میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی کے ہاتھوں استعمال ہو۔”
شہلا نے گردن موڑ کر ایک بار پھر ان دونوں کو دیکھا مگر اس بار اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ جیسے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کچھ دیر ان دونوں کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”یہ سارا قصہ تو اب ویسے بھی ختم ہو ہی گیا ہے۔ عمر کو معطل کیا جا چکا ہے اور اس کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ اب وہ اور کیا جنید کو استعمال کرے گا۔ تم اگر جنید کو منع نہ بھی کرو تب بھی میں نہیں سمجھتی کہ وہ زیادہ عرصے جنید سے ملتا رہے گا۔ آخر اب اور کیا لینا ہے اسے جنید سے یا تم سے The cat is already out of the bag (بلی اب تھیلے سے باہر آچکی ہے) وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
”ویسے بھی تم اتنی Dominating (حاوی) نہیں ہو کہ جنید کو کسی بات پر مجبور کر سکو۔ یہ بھی سوچو کہ اگر تم اس کی بات ماننے سے صاف صاف انکار کر سکتی ہو تو کیا وہ تمہاری بات مانے گا۔ وہ تم سے یہ نہیں کہے گا کہ اب تم کیوں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی، اس کے فیصلوں کو بدلنے کی کوشش کررہی ہو۔” شہلا نے جیسے تنبیہ کرنے والے انداز میں اس سے کہا۔
”میں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش نہیں کر رہی اور نہ ہی آئندہ کبھی کروں گی اور dominate کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں عمر کو پسند نہیں کرتی۔ اسے اس بات کا پتا ہونا چاہیے اور اسے میری پسند یا ناپسند کا احترام کرنا چاہیے۔” اس بار علیزہ کا انداز کچھ مدافعانہ تھا۔
”یہ تو وہ پہلے ہی جان چکا ہوگا کہ تم عمر کو ناپسند کرتی ہو۔ میرا خیال ہے یہ بات تو اس کے لیے کوئی راز نہیں ہو گی مگر اب اگر وہ اس سے ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے ناپسند نہیں پسند کرتا ہے۔ پھر اگر اس نے تم سے یہ کہا کہ تمہیں بھی اس کی پسند اور ناپسند کا احترام کرنا چاہیے تو؟”
علیزہ اسے گھورنے لگی۔ ”تم عمر کو جانتے ہوئے بھی اس طرح کی بات کہہ رہی ہو؟”
”ہاں عمر… میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کو جنید ناپسند کرے۔ تم عمر کو کیوں ناپسند کرتی ہو۔ اس کی وجوہات بھی دوسری ہیں، صرف صالحہ والا معاملہ تو اس کی وجہ نہیں ہے۔” شہلا نے اطمینان سے برگر کھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکی۔
”پھر میں عمر سے بات کروں گی۔ میں اس سے کہوں گی کہ وہ جنید سے ملنا چھوڑ دے۔” علیزہ نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آخر تم دفع کیوں نہیں کرتیں اس سارے معاملے کو، وہ اس سے ملتا ہے ملنے دو۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کے ملنے کی وجہ وہی ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔” اس بار شہلا نے قدرے چڑ کر کہا۔ ”ہو سکتا ہے وہ کسی اور وجہ سے آپس میں ملتے ہو۔”
”میں چاہتی ہوں یہ جنید سے ایسے ویسے کیسے بھی نہ ملے۔ میں چاہتی ہوں جنید اس کی شکل تک نہ دیکھے۔” علیزہ بری طرح مشتعل ہو گئی۔
”تم بہت بدل گئی ہو علیزہ۔” شہلا نے یکدم اس سے کہا۔
”کیا مطلب؟” علیزہ نے اسے ناراضی سے دیکھا۔