Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”پانچ سال پہلے تم کیسی تھیں اور اب کیسی ہو؟ اتنا غصہ اور ضد تو کبھی نہیں کیا کرتی تھیں تم…پھر اب کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے اپنے سامنے پڑا ہوا برگر کھانا شروع کر دیا۔
”کتنی جلدی غصہ آ جاتا ہے تمہیں…اور پچھلے ایک سال سے تو تم…آخر ہو کیا رہا ہے تمہیں؟” شہلا اب جیسے اسے ڈانٹ رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہو رہا مجھے، میں ایسی ہی تھی ہمیشہ سے۔” اسے شہلا کی بات پر اور غصہ آیا ”کیا ہونا ہے مجھے پچھلے ایک سال میں۔ میں بہت خوش ہوں اور میں آخر خوش کیوں نہیں ہوں گی۔ جنید جیسے آدمی کا ساتھ کسی بھی لڑکی کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے اخباروں میں سے ایک کے لیے کام کر رہی ہوں۔ لوگ میرا نام پہچانتے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ میں غصہ کرتی ہوں۔ کیوں کروں گی میں غصہ، میں اپنی کامیابیوں کو انجوائے کر رہی ہوں۔” اس نے اپنا برگر پلیٹ میں پٹخ دیا۔ ”چاہے تمہیں یا اور کسی کو اس کا یقین آئے یا نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ میں بہت خوش ہوں اور میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں اور میں اپنی کامیابیوں پر فخر کرتی ہوں بس یا اور کچھ ۔۔۔”
”میں نے یہ سب کچھ تو نہیں پوچھا تھا۔” شہلا نے مدھم آواز میں کہا۔ ”میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ اتنی غصیلی کیوں ہو گئی ہو تم، اتنی جلدی غصہ کیوں آتا ہے تمہیں۔ ضد کیوں کرنے لگی ہو اتنی؟ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم مجھے اپنی کامیابیوں اور فتوحات کی داستان سنانی شروع کر دو۔”



”تم کیا چاہتی ہو شہلا! میں اسی طرح ڈفر اور ڈل رہتی، جس طرح پانچ سال پہلے تھی۔ آنکھوں پر پٹی اور منہ پر ٹیپ لگا کر پھرتی جس طرح دس سال پہلے پھرتی تھی، فار گاڈ سیک میں بے وقوف نہیں رہی ہوں۔ عقل اور سمجھ آ گئی ہے مجھ میں…عمر جیسے لوگوں کی انجوائے منٹ کا سامان نہیں بن سکتی میں، نہ کوئی اب مجھے استعمال کر سکتا ہے اور تو کچھ نہیں بدلا۔۔۔” اس نے تلخی سے کہا۔
شہلا نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کو ایک بار غور سے دیکھا۔
”اس طرح مت دیکھو مجھے۔ میں اب بھی تمہیں کوئی داستان امیر حمزہ نہیں سنا رہی ہوں۔” علیزہ نے برگر کی ٹرے اپنے آگے سے خفگی کے عالم میں ہٹا دی۔
”اچھا نہیں دیکھتی تمہیں بیٹھ کر کھانا تو کھاؤ۔” شہلا نے اٹھتے دیکھ کر کہا ”کم از کم اب اس طرح منہ اٹھا کر یہاں سے مت جاؤ۔”
”نہیں اب مجھے یہاں نہیں رکنا، میں نے جتنا کھانا تھا کھا لیا…تم کھانا چاہو تو کھاؤ، میں باہر گاڑی میں تمہارا انتظار کر لوں گی۔” اس نے اکھڑے ہوئے انداز میں اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”فار گاڈ سیک علیزہ…!مجھے تمہارے ساتھ یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔” شہلا نے اپنی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا۔
”آئندہ مت آنا۔” علیزہ نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے اس پر ایک نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
”اب کسے کال کر رہی ہو؟” شہلا نے ٹھٹھکتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے جواب نہیں دیا، وہ کھڑے کھڑے دور عمر اور جنید کو دیکھتے ہوئے نمبر ڈائل کرتی رہی۔
جنید نے موبائل کی بیپ پر اپنا موبائل اٹھا کر کالر کا نمبر دیکھا اور پھر موبائل آف کر دیا۔
”کس کی کال ہے؟” عمر نے بات کرتے کرتے رک کر اس سے پوچھا۔
”ایسے ہی ایک دوست کی۔۔۔” اس نے عمر کو ٹال دیا۔
”تم کیا کہہ رہے تھے؟” اس نے عمر کو بات جاری رکھنے کے لیے کہا۔



علیزہ نے موبائل کان سے ہٹا لیا۔
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔
”کیا ہوا؟” شہلا نے پوچھا۔ علیزہ نے جواب دینے کے بجائے عمر کو اور جنید کو دیکھا۔
”جنید کو کال کی ہے؟” شہلا کو اچانک خیال آیا۔
”ہاں اور اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ جب تک یہ شخص اس کے ساتھ ہے۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اچھا چلو…ہم جا رہے تھے یہاں سے۔” شہلا نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپنی ٹرے پکڑی ہوئی تھی، علیزہ اس کے ساتھ چلنے لگی مگر ساتھ چلتے ہوئے اب وہ ایک بار پھر موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھی۔
”علیزہ ! بار بار نمبر ڈائل مت کرو۔ موبائل کو بیگ میں ڈالو۔ جنید ابھی بات کرنا نہیں چاہ رہا ہوگا کیونکہ وہ کھانے میں مصروف ہے اور پھر عمر کے سامنے وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہ رہا ہوگا۔”
***

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!