عمر نے حیرانی سے اپنے موبائل پر نمودار ہونے والا نمبر دیکھا اور پھر جنید کو۔
”کیا ہوا؟” جنید نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”علیزہ کال کر رہی ہے۔” عمر نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا مگر اس کے ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے موبائل بند ہو گیا۔
”بات نہیں کی تم نے؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”نہیں بند کر دیا اس نے۔” عمر نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اس کی کال پر اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو تم؟” جنید نے کہا۔
”کیونکہ بہت عرصہ بعد اس نے آج اچانک موبائل پر مجھے کال کی ہے۔” عمر اب بھی الجھا ہوا تھا۔ جنید یکدم کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔
”تمہیں کیا ہوا؟” عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے بھی کال کی تھی۔”
”وہ کال جو تم کسی دوست کی کہہ رہے تھے؟”
”ہاں…اب میں سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ تمہیں موبائل پر کال نہیں کرتی تو اس طرح آج اچانک اس نے ہم دونوں کو باری باری کال کیوں کی ہے؟”
”میں جانتا ہوں اس نے کیوں بار بار ہم دونوں کو کال کی ہے۔” عمر نے اچانک اپنی ٹرے پیچھے کھسکاتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ وہ اسی ہال میں کہیں موجود ہے اور اس نے ہم دونوں کو دیکھ لیا ہے۔” عمر نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔
”اب رش اتنا ہے کہ اس طرح بیٹھے بٹھائے تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیے۔” عمر اپنی کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا جبکہ جنید نے ایسی کوئی زحمت نہیں کی۔ وہ اطمینان سے اسی طرح بیٹھے ہوئے ایک بریسٹ پیس کو ساس کے ساتھ کھاتا رہا۔ عمر چند منٹوں کے بعد کندھے اچکاتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”مجھے ہال میں تو کہیں نظر نہیں آئی۔ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔”
”اگر کال کی وجہ ہم دونوں کا اکٹھے دیکھ لینا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ یوں آرام سے ہمیں کال کرتی پھرے گی۔” جنید نے سو فٹ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔ ”وہ تو ہمیں دیکھتے ہی یہاں موجود ہوتی اور مجھے بازو سے پکڑ کر اس ٹیبل سے لے جاتی۔”
عمر اس کی بات پر مسکرایا۔ ”نہیں میرا خیال ہے، وہ پہلے مجھے دو تین تھپڑ لگاتی اور اس کے بعد تمہارا بازو پکڑ کر تمہیں یہاں سے لے جاتی۔” اس بار جنید اس کی بات پر مسکرایا اور ٹشو سے اپنا منہ صاف کرنے لگا۔
”اس کے باوجود میرا خیال ہے وہ یہیں کہیں ہے۔” عمر اب سو فٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اپنے اطراف میں نظریں دوڑاتا ہوا کہہ رہا تھا۔
”اگر تمہارا اندازہ ٹھیک ہے تو مجھ سے اس کی شکایتوں میں ایک اور شکایت کا اضافہ ہو گیا ہے اور آج رات کو وہ ایک بار پھر مجھے فون کرے گی اور مجھ سے تمہارے ساتھ ہونے والی میری ملاقات کے بارے میں پوچھے گی۔ اس کا مطلب ہے مجھے پہلے ہی خاصا خبردار ہو جانا چاہیے۔” جنید نے اطمینان سے کہا۔
”اور اچھا ہی ہوا مجھے یہ پتا چل گیا ورنہ میں پھر اس بارے میں اس سے جھوٹ بولتا۔”
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے عمر سے کہا۔ عمر نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، وہ سوفٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اب کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
٭٭٭