شہلا نے علیزہ سے فون چھین کر آف کر دیا اور اس کے بیگ میں ڈال دیا وہ اب کے ایف سی کی سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں۔
”عمر کو فون کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔ اسے فون کرکے تم کیا کہو گی؟” اس نے علیزہ کو سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
”جوبھی دل میں آئے گا میں کہوں گی۔”
”اور اس نے سب کچھ جنید کو بتا دیا تو؟”
”کیا بتائے گا وہ جنید کو؟”
”اس کے پاس بتانے کے لیے خاصا کچھ ہے۔” شہلا نے رک کر اسے دیکھا۔
”مثلاً کیا ہے اس کے پاس؟”
”وہ جنید کو اپنے لیے تمہاری ناپسندیدگی کی وجہ بتا دے گا۔”
”جنید پہلے ہی جانتا ہے کہ میں اسے کیوں ناپسند کرتی ہوں۔” علیزہ اس کی بات سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”نہیں جنید نہیں جانتا…اگر جانتا ہوتا تو۔۔۔”
شہلا نے بات ادھوری چھوڑ دی، وہ دونوں اب پارکنگ میں اپنی گاڑی کے پاس پہنچ چکی تھیں۔
”جنید اچھی طرح جانتا ہے، میں سب کچھ بتا چکی ہوں اسے۔”
”کیا بتا چکی ہو؟” شہلا نے درشتی سے گاڑی کے پاس رکتے ہوئے کہا۔
”میں عمر کو اس کی حرکتوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتی۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اس کے باوجود تم اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں، یہ پتا ہے جنید کو؟”
علیزہ جواب میں کچھ نہیں بول سکی۔
”تمہاری ناپسندیدگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے تم سے شادی نہیں کی۔”
”ایسا نہیں ہے۔” علیزہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”ایسا ہی ہے علیزہ! چاہے تم اسے مانو یا نہ مانو اور اگر تمہاری حرکتوں کی وجہ سے عمر نے جنید کو یہ بات بتا دی تو نتائج کا اندازہ تم کر سکتی ہو۔ ” شہلا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”کیامطلب ہے تمہاری اس بات کا۔” علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”یہ مطلب ہے کہ تم اپنے دماغ کو استعمال کیا کرو اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دوبار سوچا کرو۔۔۔” شہلا نے اس بار تیز آواز میں کہا۔
”کیا بتا دے گا وہ اسے، میرے بارے میں ؟ کون سی قابل اعتراض بات ہے جو…” شہلا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ تم نہیں جنید کرے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عمر اسے کس طرح ساری بات بتاتا ہے۔”
علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔
”اب چلیں یہاں سے؟” شہلا نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم کو ایک بات بتاؤں۔” علیزہ نے یکدم گردن موڑ کر شہلا سے کہا۔
”عمر ایک انتہائی کمینہ اور گھٹیا آدمی ہے، وہ بے حد خودغرض شخص ہے، اس کی نظر میں کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” وہ بات کرتے کرتے لمحہ کے لیے رکی ”مگر اس نے آج تک میری کوئی بات کسی سے نہیں کہی۔ مجھے اس سے یہ خوف کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ میرا کوئی راز کسی تیسرے آدمی کو بتا دے گا۔ اس نے میرے ساتھ ایسا کبھی کیا ہی نہیں اور تمہیں ایک اور بات بتاؤں۔۔۔”
وہ ایک لحظہ کے لیے پھر رکی۔ ”وہ اگر جنید کو یہ بات بتا دے گا تو جنید پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تم جس بات سے مجھے ڈرا رہی ہو مجھے اس سے اس لیے خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتی ہوں جنید مجھے اتنی معمولی سی بات پر کبھی نہیں چھوڑے گا۔”
شہلا اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی۔ علیزہ اب ونڈ سکرین سے باہر نظر آنے والی کے ایف سی کی عمارت کو دیکھ رہی تھی۔
***