Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

رات کو جنید نے اسے فون کیا تھا مگر علیزہ نے فون پر اس سے بات نہیں کی، وہ شاید اس کال پر بہت خوش ہوتی اگر وہ چند گھنٹے پہلے ان دونوں کو وہاں بیٹھے اور پھر جنید کے اس کی کال کو اس طرح نظر انداز کرتے نہ دیکھ چکی ہوتی۔
”آپ اس سے کہہ دیں کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں مصروف ہوں جب فرصت ملے گی تو اس سے بات کر لوں گی۔” اس نے بڑی بے رخی کے ساتھ اپنے کمرے میں پیغام لے کر آنے والے ملازم سے کہا۔ ملازم نے حیرانی سے اسے دیکھا اور واپس آگیا۔
جنید کی اگلی کال اس کے موبائل پر آئی تھی۔ اس نے موبائل پر اس کا نمبر دیکھ کر موبائل آف کر دیا، جنید نے اس کے بعد کال نہیں کی۔
اگلے روز صبح جنید نے اس وقت کال کی جب وہ ناشتہ کر رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر موبائل آف کر دیا۔ جنید نے دوبارہ گھر کے فون پر کال کی۔ اس بار فون نانو نے اٹھایا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
”علیزہ ناشتہ کر رہی ہے، میں اسے بلواتی ہوں۔”
پھر انہوں نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے آواز دی۔ وہ کچھ دیر کانٹا ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچتی رہی پھر کانٹے کو پلیٹ میں پٹخ کر فون کی طرف آگئی، نانو سے فون لیتے ہی اس نے کسی سلام دعا کے بغیر چھوٹتے ہی کہا۔
”میں آفس کے لیے نکل رہی ہوں، آج آفس میں بہت کام ہے مجھے …اور مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے۔ اس لیے بہتر ہے آج آپ مجھے فون نہ کریں ،میں رات کو بھی دیر سے گھر واپس آؤں گی اور آتے ہی سو جاؤں گی۔ کوشش کروں گی کہ کل آپ سے کچھ بات کروں۔”



”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، کل میں بہت مصروف ہوں گا اور میں تمہیں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا جب تمہیں فرصت ملے تب بات ہو جائے گی۔”
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا۔ جنید کی آواز میں کوئی گرم جوشی نہیں تھی، وہ جان گئی تھی کہ جنید کو اس کی بات بری لگی ہے مگر اس وقت اسے اس پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔
”ہر بار اسے میں ہی فون کروں۔ ہر بار اسے میں ہی مناؤں …اور یہ ، یہ ہر بات مجھ سے چھپاتا رہا یہاں تک کہ عمر سے میل جول بھی ۔ عمر کے سامنے اس نے مجھ سے بات تک کرنا پسند نہیں کیا۔ فون بند کر دیا۔ یہ اہمیت ہے اس کی نظر میں میری۔”
وہ بری طرح کھولتی رہی۔ جنید پر اسے پہلے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔ اس کا خیال تھا جنید جیسے مزاج اور عادات والے شخص پر اسے غصہ آ ہی نہیں سکتا یا کم از کم اس طرح کا غصہ نہیں، جیسا غصہ وہ اس وقت اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔
جنید نے اگلے دن اسے فون نہیں کیا۔ رات کو جب وہ یہ طے کر رہی تھی کہ وہ بھی آئندہ اسے اس وقت تک فون نہیں کرے گی جب تک وہ خود اسے فون نہیں کر لیتا تو اچانک جنید نے اسے موبائل پر کال کر لیا۔ اس کا لہجہ اتنا پرسکون اور خوشگوار تھا کہ علیزہ کو جیسے حیرانی کا ایک جھٹکا لگا۔
”تو جناب…کیا ہو رہا ہے؟” رسمی سلام دعا کے بعد اس نے علیزہ سے پوچھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ وہ کیا جواب دے۔ وہاں دوسری طرف لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناراضی ہوئی تھی۔
”کچھ نہیں، میں سونا چاہ رہی تھی۔” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد کہا۔



”تم نے اتنے دن سے مجھ سے بات نہیں کی۔ تمہیں محسوس نہیں ہوا۔ اب تم سونے جا رہی ہو۔” جنید نے جیسے افسوس کا اظہار کیا۔ ”مجھ سے ناراض ہو کر نیند آ جاتی ہے تمہیں؟”
”ہاں بالکل آ جاتی ہے۔”
دوسری طرف وہ ہنسا۔ ”شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا…بلکہ پہلے سے زیادہ اچھی آتی ہے۔”
”نہیں پہلے ہی کی طرح آتی ہے۔”
”یعنی میری ناراضی نے تمہارے معمولات پر کوئی اثر نہیں ڈالا؟”
”اگر آپ میری ناراضی سے متاثر نہیں ہوئے تو میں کیوں متاثر ہوں گی۔”
”یہ کس نے کہا ہے کہ میں تمہاری ناراضی سے متاثر نہیں ہوا۔ کھانا پینا چھوڑا ہوا ہے میں نے۔” دوسری طرف سے بظاہر سنجیدگی سے کہا گیا۔ علیزہ کو غصہ آیا۔
”گھر سے نکلنا تک بند کر دیا ہے، اس کے علاوہ اور کیا اثرات ہوتے ہیں؟”
”آپ نے مذاق اڑانے کے لیے فون کیا ہے؟”
”ارے…کس کا مذاق اڑا رہا ہوں میں؟”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!