”انسان اگر کھانا وغیرہ کھا لے، باہر بھی آتا جاتا رہے مگر دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرے تو باہمی تعلقات کے لیے یہ بہتر نہیں ہے۔”
”یہ تم میرے بارے میں کہہ رہی ہو؟” اس بار جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپ اپنے بارے میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔”
”علیزہ! کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم پچھلے کچھ دنوں کے واقعات کو Skip (چھوڑ) کرکے ایک دوسرے سے بات کریں؟” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں…؟”
”یہ ہم دونوں کے تعلقات کے لیے زیادہ بہتر رہے گا۔”
”کون سے تعلقات جنید…؟” اس نے اس بار بے صبری سے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے کہ ہمارے درمیان اتنے لوگ ہیں کہ براہ راست والا تو کوئی تعلق شاید ہے ہی نہیں۔ آپ نے اتنے لوگوں کو اس رشتے میں فریق بنا لیا ہے کہ مجھے تو لگتا ہے ہماری کوئی پرائیویسی بھی نہیں ہے۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم عمر کی بات کر رہی ہو۔ میں جانتا ہوں۔”
”یقیناً جانتے ہوں گے، آپ نہیں جانیں گے تو کون جانے گا۔” علیزہ نے اس بار ناراضی سے کہا۔ ”آپ کی تو یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ آپ مان رہے ہیں کہ میں عمر کی بات کر رہی ہوں اور آپ یہ بات جانتے ہیں ورنہ آپ پہلے کی طرح صاف انکار کر دیتے اور یہ کہتے کہ عمر سے کبھی آپ کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تو میں کیا کر سکتی تھی۔”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم عمر کی بات نہ کریں۔” جنید کا لہجہ یکدم خشک ہو گیا۔
”اس کی بات میں نے نہیں آپ نے شروع کی۔ اسے اپنے اور میرے درمیان آپ لے کر آئے تھے پھر اب اس کی بات کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں آپ؟”
”میں ہچکچا نہیں رہا ہوں۔ میں بس عمر کی بات نہیں کرنا چاہتا۔”
”آپ اس کے ساتھ کے ایف سی جا سکتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”آپ مجھے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ آپ اس کے معطل ہونے پر مجھ سے بات کرنا بند کر سکتے ہیں مگر آپ اس کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کر سکتے۔ آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں یا بے وقوف بنا رہے ہیں۔”
”تمہیں اس وقت غصہ آ رہا ہے اور غصہ میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔” جنید نے تحمل سے کہا۔
”جنید! مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔ آپ کی غلط بیانی پر بھی مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔” وہ جنید کی بات پر اور ناراض ہوئی۔
”آپ نے عمر کی وجہ سے اتنے دنوں سے مجھ سے بات کرنا چھوڑا ہوا ہے اور آپ کو لگتا ہے غصہ میں، میں ہوں۔”
”اگر میں نے بات کرنا چھوڑا ہوا تھا تو فون بھی تو میں نے کیا ہے۔” جنید نے کہا۔
”آپ نے کتنی بار فون کیا ہے، بس کل اور آج…اور…اس سے پہلے جو میں آپ کو فون کرتی رہی وہ۔۔۔”
”ہم بچوں کی طرح فضول باتوں پر لڑرہے ہیں۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہم میچور ہیں۔ ٹین ایجر نہیں ہیں۔” علیزہ کو اس کے میچور لفظ استعمال کرنے پر بے اختیار غصہ آ گیا۔
”نہیں میں میچور نہیں ہوں، اور میں واقعی بچوں کی طرح لڑ رہی ہوں کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بات کرنا ختم کر دیں۔”
”علیزہ ! کیا میں ایکسکیوز کروں تم سے…؟ او کے آئی ایم سوری۔”
علیزہ کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا۔ ”کیا میں نے آپ سے کہا ہے کہ آپ ایکسکیوزکریں۔ بات بھی کی ہے میں نے اس کے بارے میں، پھر آپ کیوں ایکسکیوز کررہے ہیں۔ مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو اس طرح خواہ مخواہ ایکسکیوز کرتے پھریں۔”