”یعنی تمہیں میں اچھا نہیں لگتا؟”
”اب آپ پھر بات کو غلط رخ دے رہے ہیں۔” وہ گڑبڑائی۔
”ٹھیک ہے میں اب بات کو صحیح رخ دیتا ہوں ، تم کل کھانا کھانے چلو گی میرے ساتھ؟” جنید نے کہا۔
”نہیں۔۔۔” اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”کے ایف سی لے کر جاؤں گا تمہیں…وہیں جہاں عمر کے ساتھ گیا تھا اور جہاں تم ہمیں دیکھنے کے بعد بھاگ گئی تھیں۔”
جنید نے اس بار شوخ لہجے میں کہا۔
”میں کہیں نہیں بھاگی تھی۔ کس نے کہا ہے کہ میں بھاگ گئی تھی؟” وہ چڑ کر بولی۔
”عمر نے بتایا ہے، اسے خاصا اندازہ ہے تمہارے ٹمپرامنٹ کا۔”
علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ”آپ عمر کو ہی دوبارہ وہاں لے جائیں، مجھے لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں مذاق کر رہا تھا علیزہ سب، تمہارے سینس آف ہیومر کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا اب مجھے تم کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔”
”آپ مجھے کچھ بھی نہ بتائیں۔”
”اچھا تم ہمارے گھر کب آرہی ہو۔ بہت دن سے نہیں آئیں؟”
وہ کچھ دیر چپ رہی۔ ”میں آؤں گی، ابھی کچھ مصروف ہوں۔”
”علیزہ! مجھے تمہیں کچھ باتیں بتانا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کسی دن تم میرے لیے کچھ زیادہ وقت نکالو اور اپنے غصے کو کچھ دیر کے لیے بھول جاؤ۔” جنید نے بڑی رسانیت کے ساتھ کہا۔
”کیسی باتیں؟”
”یہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا۔ آمنے سامنے بات کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ اس وقت کم از کم تم فون بند کرکے گفتگو بند نہیں کر سکو گی۔”
”آپ اس بارے میں پریشان نہ ہوں، میں ابھی بھی فون بند نہیں کروں گی…آپ مطمئن ہو کر بات کر سکتے ہیں۔ ” علیزہ کو کچھ تجسس ہوا۔
”نہیں فی الحال میں تم سے یہ باتیں نہیں کر سکتا کیونکہ میں نہیں چاہتا تمہارے غصے میں مزید اضافہ ہو۔”
”نہیں میرے غصے میں اضافہ نہیں ہوگا، آپ بتا دیں۔” اس نے اصرار کیا دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔
”ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے نہ ہی میں نے لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اس قابل ہو جاؤں گا کہ یہ دونوں کام کر سکوں۔”
اسے اندازہ نہیں ہو سکا۔ وہ اس بار بات کرتے ہوئے سنجیدہ تھا یا پہلے کی طرح مذاق کر رہا تھا مگر اس بار علیزہ نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔
”تمہارا موڈ ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” جنید نے اس کی خاموشی پر کہا۔
”ہاں۔۔۔”علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔
”گڈ۔” جنید نے دوسرے طرف سے جیسے اسے سراہا۔ ”ویسے آٹھ دس سال پہلے تمہیں کبھی غصہ نہیں آتا تھا۔”
علیزہ کو شہلا کی بات یاد آئی، وہ کہہ رہا تھا۔
”آٹھ دس سال پہلے تو تمہیں غصہ نہیں آتا تھا۔” علیزہ نے حیرانی سے اس کی بات سنی، جنید نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ فون رکھتے ہوئے وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
”آٹھ دس سال پہلے…جنید آٹھ دس سال پہلے کے بارے میں کیسے کچھ جان سکتا ہے۔”
٭٭٭