علیزہ نے جنید کے گھر کے گیٹ پر ہارن بجایا، چوکیدار دروازہ کھولنے لگا وہ اس وقت اتفاقاً ہی ادھر آ گئی تھی۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اور شہلا کے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے اچانک ہی گاڑی کو جنید کے گھر کی طرف موڑ لیا۔ وہ کافی دن سے انکی طرف نہیں گئی تھی اور آج اسے کچھ فرصت تھی۔
چوکیدار نے گیٹ کھول دیا مگر وہ اپنی گاڑی اندر نہیں لے جا سکی۔ اس کی نظریں اندر پورچ میں کھڑی ایک گاڑی پر جم گئی تھیں۔ چند لمحوں تک اسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وہ عمر جہانگیر کی ذاتی گاڑی کو وہاں دیکھ رہی تھی مگر پھر اس کے اندر غصے کی ایک لہر سی اٹھی۔ سرخ چہرے کے ساتھ ایک جھٹکے سے وہ گاڑی اندر لے گئی، عمر کی گاڑی کے بالکل پیچھے اس نے اپنی گاڑی کو کھڑا کر دیا ۔ وہ ابھی اپنی گاڑی سے نکل رہی تھی جب اس نے عمر کو لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے دیکھا۔ اس کی نظر علیزہ پر پڑی اور ایک لمحہ کے لیے وہ ٹھٹھک گیا مگر اس کے بعد اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس مسکراہٹ نے علیزہ کو اور مشتعل کیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے عمر اس کا منہ چڑا رہا ہو۔ منگنی کی رات کے بعد ان دونوں کی اب ملاقات ہو رہی تھی اور جن حالات میں ہو رہی تھی وہ کم از کم علیزہ کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔
”ہیلو علیزہ !” عمر نے اس کے قریب آ کر کہا۔
علیزہ نے اسے سرد مہر ی سے دیکھا۔ ”تم یہاں کیا کررہے ہو؟” کسی لگی لپٹی کے بغیر اس نے عمر سے پوچھا۔
عمر کو شاید اس سے اس طرح کے سوال کی توقع نہیں تھی۔
”میں…میں ویسے ہی آیا ہوں یہاں۔” عمر نے جیسے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”وہی پوچھ رہی ہوں…تم یہاں ویسے بھی کیوں آئے ہو؟” علیزہ کا خون کھول رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے صالحہ کا انکشاف ایک بار پھر اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔
”کیا ہوا علیزہ! اتنی روڈ کیوں ہو رہی ہوں؟” عمر نے جیسے اس کے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم ”میرے” گھر میں کیا کر رہے ہو؟” علیزہ نے ”میرے” پر زور دیتے ہوئے کہا اور عمر چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بولا یا شاید بول نہیں سکا پلکیں جھپکا ئے بغیر وہ علیزہ کے چہرے کو دیکھتا رہا جو بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”تم یہاں کیوں؟ اس کا جواب دے سکتے ہو؟ نہیں، کوئی جواب نہیں ہے نا تمہارے پاس؟” وہ اب استہزائیہ انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”دوسروں کی زندگی برباد کرنے کے لیے ہر جگہ منہ اٹھا کر پہنچ جاتے ہو؟” اس کے ہونٹ اور آواز بری طرح لرز رہی تھی۔
”علیزہ !” عمر اس کی بات پر دم بخودرہ گیا۔
”تم سے عمر! تم سے برداشت ہی نہیں ہوتا کہ میں ایک اچھی پرسکون زندگی گزار سکوں۔”
”پتہ نہیں کیوں برباد کرنا چاہتے ہو تم مجھے۔ پتا نہیں میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔”
”علیزہ! تمہیں کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے۔” عمر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے…مجھے؟ ایسا ہے تو تم یہاں کیوں آئے ہو…؟” اس نے بمشکل خود کو چلانے سے روکا۔
”میں یہاں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” یہ میرا گھر ہے عمر…! کم از کم یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں تمہیں دھکے دے کر نکلوا سکتی ہوں۔” وہ اب گیٹ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ ”یہ نانو کا گھر نہیں ہے جسے میں تمہارے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور تھی۔ جہاں تم اپنا حق جتا سکتے تھے۔”
”میں یہاں کوئی حق جتانے نہیں آیا۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی ”اور میں نے کبھی گرینی کے گھر پر بھی کوئی حق نہیں جتایا۔” اس کی آواز پرسکون تھی۔ ”تم مجھ پر کم از کم یہ الزام عائد نہیں کر سکتیں۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ گھر تمہارا ہے اور تم مجھے یہاں سے دھکے دے کر نکلوا سکتی ہو۔”
وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”مگر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں اس کے بغیر ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں، ابھی اتنی تہذیب تو باقی ہے مجھ میں کہ میرے ساتھ کسی کو زبردستی نہ کرنا پڑے۔” وہ مدھم آواز میں بولا۔
”تم میں جتنی تہذیب ہے میں جانتی ہوں۔” علیزہ نے تلخ لہجے میں کہا۔ ”بلکہ مجھ سے زیادہ یہ بات تو کوئی جان بھی نہیں سکتا۔” عمر نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر مڑنے لگا۔
”تم دوبارہ کبھی اس گھر میں مت آنا۔”
عمر مڑتے مڑتے رک گیا۔