Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”دل تو already (پہلے ہی) آپ کے پاس ہے۔ میں تو اس وقت دماغ کو استعمال کرتے ہوئے تعریف کر رہا ہوں۔
sane, sensible thing (دانا اور سمجھ دار)
علیزہ نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
اس کی برجستگی آج واقعی لاجواب کر دینے والی تھی۔
It means that I am going to marry a heartless person ( اس کا مطلب ہے کہ ایسے شخص سے شادی کر رہی ہوں جس کا دل ہی نہیں ہے)
On the contrary I’m going to marry a girl with two hearts (اس کے بر عکس میں جس لڑکی سے شادی کر رہا ہوں اس کے دو دل ہیں)
جنید نے اتنی ہی بے ساختگی سے کہا۔
”میڈیکل سائنس میں دو دلوں والے انسان کو کیا کہا جاتا ہے۔” علیزہ نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”میڈیکل سائنس کا تو مجھے پتا نہیں مگر غالب اسے ”محبوب” کہتے ہیں۔”



علیزہ بے اختیار کھکھلائی، جنید کے منہ سے غالب کا حوالہ اسے بے حد دلچسپ لگا تھا۔
”میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آپ بھی زندگی میں کبھی غالب کی بات کریں گے۔ اقبال کا ذکر کب فرمائیں گے؟”
”اقبال کا ذکر مشکل ہی ہے، وہ خودی کی بات کرتے ہیں اور محبت ہو جانے کے بعد خودی کہاں باقی رہتی ہے۔اس لئے اقبال کا ذکر اب باقی ساری زندگی مشکل ہی ہے۔ بس غالب ہی ٹھیک ہیں۔”
”وہی غالب جو کہتے ہیں کہ عشق نے نکما کر دیا؟”
”غالب تو یہ بھی فرماتے ہیں”
بلائے جان ہے غالب اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا
”میرے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے آپ کا یہ شعر۔” علیزہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”یہ میرا نہیں غالب کا شعر ہے اس لئے اگر آپ کے سر کے اوپر سے گزر گیا تو کوئی بات نہیں، میں اعتراض تب کرتا اگر میرا شعر آپ کے سر کے اوپر سے گزر جاتا۔”
”آپ کا اپنا شعر ہوتا تو وہ بھی میرے سر کے اوپر سے ہی گزرتا۔ لٹریچر اور خاص طور پر شعر و شاعری کے معاملے میں کچھ زیادہ اچھا ذوق نہیں رکھتی۔”
”آپ فکر نہ کریں جناب، میرے ساتھ رہیں گی تو ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ٹھیک ہو جاؤں گی یا آپ ٹھیک کر دیں گے؟”
”دونوں میں کوئی فرق ہے؟”
”بہت ۔۔۔”
”میں ٹھیک نہیں کروں گا آپ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گی۔”
”ابھی ٹھیک نہیں ہوں؟”
”نہیں ٹھیک ہیں مگر بعد میں کچھ زیادہ ٹھیک ہو جائیں گی یا پھر میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔” اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”صرف ٹھیک؟ زیادہ ٹھیک نہیں ہوں گے آپ؟”
اس بار وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”چلیں …زیادہ ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ کی طرح غالب کے شعر میرے بھی سر کے اوپر سے گزرنے لگیں گے۔”
”آپ بڑے عجیب آدمی ہیں جنید!”
”یہ تعریف ہے یا تنقید؟” اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”دونوں ہی نہیں ہیں، بس تبصرہ ہے۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔



”پھر ٹھیک ہے۔ مگر آپ جب میرے گھر آ کر میرے ساتھ رہیں گی تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کی یہ رائے بہت غلط اور بے موقع تھی۔ میں بڑا سیدھا سادھا آدمی ہوں۔” اس بار وہ بھی سنجیدہ ہو گیا۔
”آپ سے ایک بات پوچھنا چاہ رہی تھی میں؟”
”جی فرمائیں؟”
”کیا نیوز پیپر سے ریزائن کر دوں میں؟”
”اس کا فیصلہ تم خود کر سکتی ہو مجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔” جنید نے بڑی سہولت سے کہا۔
”مگر میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔”
”یہ اتنا مشکل فیصلہ تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے ہے۔”
”تم جو چاہتی ہو وہ کرو۔”
”مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں کیا چاہتی ہوں، میں ڈبل مائنڈڈ ہو رہی ہوں اس لئے آپ سے پوچھ رہی ہوں کیا یہ ضروری ہے کہ میں ریزائن کر دوں؟”
”نہیں ضروری نہیں ہے۔”
”آپ کے گھر والوں کو اس پر کوئی اعتراض ہو گا؟”
”نہیں گھر والوں کو تو نہیں ہو گا مگر مجھے ہو سکتا ہے۔”
”آپ کو کیوں ہو گا؟”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!