Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

باب 50

علیزہ جنید کے ساتھ اس وقت ہوٹل میں بیٹھی تھی، وہ دونوں وہاں کھانا کھانے کے لیے آئے تھے۔ جنید نے اسے کچھ شاپنگ بھی کروائی تھی شاپنگ سے واپسی پر وہ اس ہوٹل میں چلے آئے۔
”یہ شادی سے پہلے ہمارا آخری کھانا ہے۔” ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد جنید نے علیزہ سے کہا۔
”اگلی بار تو ہم ایسی کسی جگہ پر شادی کے بعد ہی بیٹھے ہوں گے۔”
”کوئی آخری خواہش ہے تمہاری…کوئی ایسا کام جو تم آج کرنا چاہو۔۔۔” جنید نے گہرا سانس لیا۔
علیزہ کو اس کی سنجیدگی پر ہنسی آگئی۔ ”آپ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں جنید…آخری خواہش سے کیا مطلب ہے آپ کا؟”
”کوئی ایس چیز جو ہم یا تم آج کر سکتی ہو مگر تین ہفتے بعد نہ کر سکو، میرا مطلب ہے شادی کے بعد۔”
”میرے ذہن میں تو ایسی کوئی چیز نہیں آ رہی جو میں اب کر سکتی ہوں اور شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔” علیزہ نے لاپروائی سے کہا۔



”یار سوچو…ذہن پر زور ڈالو۔ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہوگا جو ہم آج کر سکتے ہیں مگر شادی کے بعد نہیں کر سکیں گے۔ اب تین ہفتے تک تو میں تم سے مل نہیں سکوں گا اس لیے اگر تمہاری کوئی خواہش ادھوری رہ گئی تو پھر مجھے مت کہنا۔”
”میں نے ذہن پر بہت زور دیا ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آ رہا بس یہ ہے کہ شادی تک آپ سے دوبارہ ملاقات نہیں ہو گی اور تو کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو چھٹ جائے اور جہاں تک آپ سے ملاقات کی بات ہے تو شادی کے بعد آپ سے ملاقات تو روز ہی ہوتی رہے گی۔ پھر اور کیا ہے۔” علیزہ نے کہا
”ہاں واقعی اور ایسا ہے ہی کیا جو چھٹ جائے گا یعنی تمہاری کوئی ایسی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی؟”
”نہیں میری ایسی کوئی خواہش نہیں ہے جو ادھوری رہ جائے گی۔”
”پھر بھی یار! اگر کچھ منوانا ہو تو آج منوا لو، میں بہت اچھے موڈ میں ہوں، شاید بعد میں تمہاری فرمائش اس طرح نہ پوری کروں جس طرح اب کرنے پر تیار ہوں۔” جنید نے فراخ دلی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میں نے آپ سے کبھی بھی کوئی فرمائش نہیں کی یہ آپ کو یاد رکھنا چاہیے۔” علیزہ نے اسے جتایا۔
”یعنی میں خود ہی تمہارا اتنا خیال رکھتا ہوں کہ تمہیں فرمائش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ تم یہی کہنا چاہ رہی ہو نا؟” جنید نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ میں فرمائشوں پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتی، خاصی قناعت پسندی ہے مجھ میں۔”
”اسی لیے تو تمہیں میں نے آفر کی ہے۔”
علیزہ نے اس کے مسکراتے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”اگر آپ اتنا اصرار کر رہے ہیں کسی فرمائش کے لیے تو آپ میری ایک خواہش پوری کر دیں۔” اس نے چند لمحے کچھ سوچتے رہنے کے بعد یکدم سنجیدگی سے کہا۔
”بالکل ضرور کیوں نہیں۔” جنید نے کچھ دلچسپی کے ساتھ ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکاتے ہوئے کہا۔
”عمر سے دوبارہ کبھی مت ملیں۔”



جنید کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ”یہ کیا بات ہوئی؟”
”آپ نے خود ہی کوئی فرمائش کرنے کے لیے کہا تھا۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”مگر یہ تو خاصی نامناسب سی فرمائش ہے۔” جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا۔
”نہیں کوئی اتنی نامناسب نہیں ہے۔” علیزہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ پہلے کی طرح اب بھی عمر سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔ اس سے ملنے سے احتراز کریں اس میں نامناسب بات کیا ہے؟”
”میں اس سے بہت زیادہ تو نہیں ملتا ہوں۔”
”میں چاہتی ہوں آپ اس سے نہ ملیں نہ کم نہ زیادہ۔ سرے سے ہی نہ ملیں۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتی۔” اس نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”تم اسے پسند کیوں نہیں کرتیں؟”
”آپ جانتے ہیں۔”
جنید نے اس کی بات پر قدرے ناگواری سے سر جھٹکا ”صرف ایک واقعہ کی بنا پر کسی کے بارے میں اس طرح کی حتمی رائے بنا لینا اور کسی کو ناپسند کرنے لگنا کچھ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے…بہت illogical (غیر منطقی) اور Unreasonable (نامناسب) قسم کی بات ہے۔”
”ایک یا دو واقعات کی بات نہیں ہے۔ بہت ساری وجوہات ہیں اس کے لیے میری ناپسندیدگی کی۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم ذرا روشنی ڈالنا پسند کرو گی، ان بہت ساری وجوہات میں سے چند ایک پر۔”
”اگر میں نے یہ کام شروع کیا تو ہم لوگ خاصا وقت ضائع کریں گے۔” علیزہ نے بات کو گول کرتے ہوئے کہا۔
”کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تم عمر کو اس کے پروفیشن سے ہٹ کر صرف ایک فیملی ممبر کے طور پر دیکھو۔ اس کے پروفیشن کے حوالے سے اسے جج نہ کرو۔” جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!