”اس کے باوجود اس کے لیے میری ناپسندیدگی اسی طرح قائم رہے گی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔ ”اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ میں اسے اس کے پروفیشن کے حوالے سے جج کروں یا نہ کروں۔”
”مجھے حیرت ہوتی ہے اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے اور تم اس کے بارے میں اتنی نیگیٹو سوچ رکھتی ہو۔”
”وہ بھی مجھے ناپسند کرتا ہے۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں کم از کم میں تمہاری اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔” جنید نے قطعیت سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اتنے سالوں میں میں نے ایک بار بھی عمر کے منہ سے تمہارے خلاف کبھی کچھ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ تمہارے بارے میں بہت فکر مند رہا ہے۔ اس نے ہمیشہ تمہاری تعریف کی ہے۔”
جنید روانی سے کہتا جا رہا تھا، علیزہ بے حس و حرکت پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے تم دونوں کے درمیان کچھ غلط فہمی ہو جسے دور ہو جانا چاہیے اور مجھے غلط فہمی کے سوا یہ کچھ اور لگتا بھی نہیں، جب تم اپنے کسی اور کزن پر اس کے کیریئر یا پروفیشن کے حوالے سے تنقید نہیں کرتیں یا اسے ناپسند نہیں کرتیں تو پھر آخر عمر ہی کیوں، کیا یہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔”
جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔ علیزہ کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔
”کیا ہوا؟ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”کتنے سالوں سے جانتے ہیں آپ عمر کو؟” اس نے سرد آواز میں جنید سے کہا وہ اسے دیکھنے لگا۔
”کتنے سالوں سے؟”
”ہاں کتنے سالوں سے؟ آپ نے کہا…آپ نے ”اتنے سالوں” سے کبھی عمر کے منہ سے میرے بارے میں کچھ برا نہیں سنا، تو آپ اور عمر ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟”
جنید نے مسکرانے کی کوشش کی ”نہیں میں نے تو یہ نہیں کہا۔”
”آپ نے یہی کہا ہے۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ جنید کچھ کہتا ویٹر ٹیبل پر کھانا سرو کرنے لگا۔ علیزہ کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ کیا آج پھر کوئی اینٹی کلائمکس ہونے والا تھا، چند منٹ کے بعد ویٹر کھانا لگا کر چلا گیا۔
”چند دن پہلے بھی آپ نے فون پر مجھ سے یہی کہا تھا کہ سات آٹھ سال پہلے تو مجھے غصہ نہیں آتا تھا، میں نے سوچا کہ آپ نے بے دھیانی میں ایسا کہا ہے مگر ایسا تو نہیں ہے۔ آپ مجھے کب سے اور کتنا جانتے ہیں۔”
”علیزہ چھوڑو یار! ہم دونوں کیا فضول باتیں لے کر بیٹھے ہیں۔ کھانا کھاتے ہیں۔” جنید نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”میں یہاں سے اٹھ کر چلی جاؤں گی، اگر آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ عمر کو آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس بار اس کی آواز میں واضح طور پر ناراضی تھی۔
جنید یکدم سنجیدہ ہو گیا، کچھ دیر وہ ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے پھر جنید نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔
”پندرہ سال سے۔۔۔” وہ دم بخود رہ گئی۔
اس وسیع عریض ڈائننگ ہال میں اسے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اپنے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو چھپانے اور خود کو جیسے سہارا دینے کے لیے اس نے اپنے ہاتھوں کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اس کے بالمقابل اپنی کرسی پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا، وہ آدمی جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ عمر کے برعکس اس سے ہمیشہ مخلص رہا ہے وہ آدمی جس کے بارے میں اسے خوش فہمی تھی کہ وہ کبھی اسے کسی چیز کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھے گا۔
جنید اب بات کرتے کرتے کچھ دیر کے لیے رک گیا تھا، شاید وہ بات جاری رکھنے کے لیے کچھ مناسب لفظوں کی تلاش میں تھا۔
علیزہ فق رنگت کے ساتھ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ دم بخود اور ساکت۔
”ہم لوگ فلیٹ میٹس تھے۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹس الگ تھے مگر ہم لوگوں کی دوستی پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ یونیورسٹی کے بعد بھی کچھ عرصہ ہم اکٹھے ہی رہے پھر عمر لندن چلا گیا۔ میں واپس پاکستان آ گیا۔ میں نے اپنے بابا کی فرم کو جوائن کر لیا مگر ہم دونوں ہمیشہ رابطے میں تھے۔” جنید نے رک کر اپنے گلاس میں پانی ڈالا۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”بہت گہری قسم کی دوستی ہے ہماری…عمر جب بھی پاکستان آتا تھا میرے یہاں بھی آتا تھا۔ بعد میں سول سروس میں آنے کے بعد یہ تعلق کچھ اور گہرا ہو گیا۔ جتنا عرصہ وہ پاکستان میں رہا بڑی باقاعدگی سے ہمارے یہاں آتا رہا۔ بعض دفعہ وہ ہمارے گھر ٹھہرتا بھی رہا ہے۔ پندرہ سال بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے، یہ کوئی پندرہ دن نہیں ہوتے کہ انسان ایک دوسرے کو جان نہ سکے۔ میں عمر کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بہت ہی اچھی طرح اسی لیے جب تم اس پر تنقید کرتی تھیں تو میں۔۔۔” جنید نے پانی کا گھونٹ بھرا۔